021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ويزا كی خریدوفروخت کے بارےمیں جدید فتوی
60752خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

سعودی عرب میں کسی سعودی شخص کو عامل کی یا ڈرائیور کی یاکسی معلم کی ضرورت ہوتی ہے، وہ سعودی حکومت سے مبلغ 2000 ریال فیس دے کر ویزا لیتاہے،پھر وہ آگے کسی آدمی کو دیتا ہے کہ مجھے عامل کی ضرورت ہے، کبھی تو ایسے ہوتاہے کہ یہ سعودی شخص اس کوویزا بیچ دیتاہے، مثلا:0500 یا 8000 یا 10000 ریال میں۔ پھر وہ دوسرا آدمی اس کو مزید آگے بیچ دیتاہے،کبھی وہ سعودی شخص ویزامفت میں دیدیتاہے لیکن یہ شخص آگے اس کو جتنے کاچاہے بیچ دیتا ہے۔ کیااس قسم کی بیع وشرا ءجائز ہے ؟کچھ علماء فرماتے ہیں کہ وہ اس پرخرچہ کے بقدر لے سکتاہے، زیادہ نہیں۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ تھوڑا سامنافع لے سکتاہے۔ آپ ہر دوصورتوں کی وضاحت فرمادیں کہ کس حدتک لیاجاسکتاہےیا بالکل لینا دیناجائز نہیں ہے؟ ایسے شخص کی آمدن کاکیاحکم ہے ؟ وہ دلیل یہ دیتے ہیں کہ جب ویزالینے والا راضی ہے تو پھر کیا اعتراض ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بعض ٹریول ایجنٹس(Travel Agents) جناب محمدحیان صاحب، جناب محمد عثمان صاحب اور سعودی عرب میں کام کے لیے جانے والے بعض پاکستانی حضرات سے اس سلسلہ میں معلومات لی گئیں، جن کا حاصل یہ ہے: 1) سعودی حکومت کمپنیوں کو ویزوں کا کوٹا (Quota) دیتی ہے، کسی کمپنی کو سو اور کسی کو پچاس ویزوں کا کوٹا (Quota)ملتا ہے، جس کو یہ کوٹا ملتا ہے حکومت کے پاس اس کا مکمل نام اور ایڈریس وغیرہ موجود ہوتا ہے، اور ہرویزے کا ایک اِنویٹیشن لیٹرInvitation letter) ) ہوتا ہے، یہ کمپنیز مختلف ممالک، مثلا؛ پاکستان کے ٹریول ایجنٹس(Travel Agents) سے رابطہ کرکے ان کو یہ لیٹر فروخت کردیتی ہیں، پاکستانی ٹریول ایجنٹس اس لیٹر کو اپنا نفع رکھ کر آگے فروخت کرتا ہے، ہر لیٹر کی فیس مختلف ہوتی ہے، جو ویزے کی نوعیت کے حساب سے ہوتی ہے، عام طور پر دو ہزار ریال ہوتی ہے۔یہ لیٹر قونصلیٹ میں جمع کروانا پڑتا ہے، اس لیٹر پر سعودی حکومت ویزا جاری کرتی ہے، اِنویٹیشن لیٹر کی طرح ویزے کی فیس بھی مختلف ہوتی ہے، یہ طریقہٴ کار کمپنیوں میں رائج ہے۔ اسی طرح اگر كسی عرب شخص کو انفرادی طورپرکام وغیرہ کے لیے ایک یا زیادہ افراد کی ضرورت پڑے تو وہ عامل کے حصول کے لیے حکومتی ارکان کو درخواست دیتا ہے، حکومتی ارکان مذکورہ بالا طریقہٴ کار کے مطابق پہلے اِنویٹیشن لیٹرInvitation letter) ) جاری کرتے ہیں ، پھر اس لیٹر پر غیرسعودی شخص (جس کو سعودی شخص بلاتا ہے) کے نام پر ویزا جاری کیاجاتا ہے،اس ویزے پر اس کا مکمل نام اور ایڈریس وغیرہ درج ہوتا ہے اور یہ ویزا پاسپورٹ پر لگایا جاتا ہے۔ 2) آزاد ویزا کوئی علیحدہ ویزا نہیں ہوتا، اس کا طریقہٴ کار بھی مکمل طور پر یہی ہوتا ہے، البتہ اس میں ایک عبارت لکھی ہوتی ہے کہ اس ویزا کے حامل کو ہر جگہ جانے کی اجازت ہے، باقی اس پر بھی نام اور ایڈریس وغیرہ سب درج ہوتا ہے۔ 3) جو سعودی شخص اِنویٹیشن لیٹرInvitation letter) ) جاری کرواتا ہے، اس کا اس لیٹر پر نام، ایڈریس اور جس مقصد کے لیے اس کو ویزا چاہیے، مثلاً: ڈرائیور یا گھر کے کام کاج کے لیے کوئی ملازم وغیرہ تو اس کی بھی وضاحت ہوتی ہے، گویا کہ ہر لیٹرپر تین چیزیں ہوتی ہیں: سعودی شخص کا نام، ایڈریس اور جس کام کے لیے عامل چاہیے۔یہ بات واضح رہے کہ سعودی عرب میں اِنویٹیشن لیٹرInvitation letter) ) کی ہی خریدوفروخت ہوتی ہے، جس کو عام طور پر لوگ ویزا کہہ دیتے ہیں، کیونکہ اس کے بغیر ویزا جاری نہیں ہوسکتا، باقی ویزا پاسپورٹ پر ایک سٹیمپ کی صورت میں لگایا جاتا ہے اور یہ کسی خاص شخص کے نام پر ہی جاری کیا جاتا ہے، جس کا حکومت کے پاس مکمل ایڈریس وغیرہ موجود ہوتا ہے ، اس کی خریدوفروخت بالکل نہیں ہوتی، نیز جب کوئی ویزا کسی فرد کے نام پر جاری کر دیا جائے تو اس کو کسی اور کے نام پر تبدیل نہیں کروایا جا سکتا، کیونکہ ایک اِنویٹیشن لیٹرInvitation letter) ) پر ایک ہی ویزا جاری ہو سکتا ہے، دوسرے ویزے کے حصول کے لیے پیچھے ذکرکردہ کاروائی مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ 4) سعودی لوگ حکومت سے اِنویٹیشن لیٹرInvitation letter)) خرید کر آگے مختلف قیمت پر فروخت کرتے ہیں، سعودی عرب میں اِنویٹیشن لیٹرInvitation letter ) کی خریدوفروخت دو قسم کی ہوتی ہے: ايك يہ کہ سعودی شخص حکومت سےلیٹرلے کر آگے کسی سعودی شخص کو کچھ نفع لے کر فروخت کر دے، حکومت کی طرف سے اس طرح لیٹر بیچنے پر بالکل پابندی ہے، خواہ اسی رقم پر بیچے یا اس سے زائد رقم پر بیچے، بلکہ وہ سعودی شخص یہ لیٹرخود ہی استعمال کرنے کا پابند ہوتا ہے،یعنی اس لیٹر پر کسی بھی شخص کو سعودی عرب میں بلا سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر پولیس والوں کو اس بات كاعلم ہو جائے کہ باہر سے آنے والا شخص اس سعودی شخص (جس كےنام پر لیٹرجاری كيا گيا تھا) کے علاوہ کسی اور آدمی (جس نے پہلے شخص سے ویزا خريدا ہے) کے پاس کام کر رہا ہے تو وہ باہر سے آنے والے شخص کو گرفتار کر لیتے ہیں۔ دوسری صورت یہ کہ سعودی شخص حکومت سے اِنویٹیشن لیٹرلے کر بیرون ملک کے کسی غیرسعودی شخص کو فروخت کرے تو اس کی حکومت کی طرف سے اجازت ہے، البتہ اضافی رقم پر بیچنا اس صورت میں بھی منع ہے۔ مذکورہ بالا معلومات کی روشنی میں اِنویٹیشن لیٹرInvitation letter) ) کی خریدوفروخت کی دونوں صورتوں کا حکم یہ ہے: پہلی صورت: اگرسعودی شخص حکومت سے اِنویٹیشن لیٹرInvitation letter) ) لے کر آگے کسی اور سعودی شخص کو فروخت کرے تو اس صورت میں یہ لیٹرآگے بیچنا دو وجہوں سے جائز نہیں: پہلی یہ کہ چونکہ لیٹر جاری کروانے والا شخص حكومتی اراكين کے سامنے یہ ظاہر کر تاہے کہ اس کو کام وغیرہ کے لیے عامل کی ضرورت ہے، جبکہ اس کو ضرورت نہیں تھی، اسی لیے وہ اس کو آگے فروخت کرتا ہے، لہذا کسی دوسرے شخص کو فروخت کرنے کی صورت میں جھوٹ، غلط بیانی اور دھوکہ دہی کاارتکاب لازم آتا ہے، دوسری یہ کہ حکومت کے جائز قانون کی خلاف ورزی کرنے کا گناہ لازم آتا ہے۔اس لیے کسی عرب شخص کواِنویٹیشن لیٹرفروخت کرنے کی اجازت نہیں ہے، خواہ اسی رقم پر بیچا جائے یا اس سے کم وبیش رقم پر۔ دوسری صورت: اگر سعودی شخص حکومت سے اِنویٹیشن لیٹرلے کرکسی غیر سعودی شخص کو فروخت کرے، تاکہ وہ شخص سعودیہ میں آکر کام کرے تو اس صورت میں چونکہ سعودی حکومت کی طرف سے یہ لیٹر آگے بیچنے کی اجازت دی گئی ہے، اس لیے اس کالیٹرفروخت کرنا فی نفسہ جائز توہے، البتہ چونکہ حکومت کی طرف سے اضافی رقم پر بیچنے کی اجازت نہیں ہے، اس لیے اضافی رقم پر بیچنے کی صورت میں حکومت کے جائز قانون کی خلاف ورزی کا گناہ ہوگا۔ باقی لیٹرخریدنے والے شخص کے راضی ہونے سے حکم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ جہاں تک اِنویٹیشن لیٹرInvitation letter) ) کو بیچ کر اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا تعلق ہے تو مذکورہ بالا دونوں صورتوں کاحکم یہ ہے کہ شرعی اعتبار سےچونکہ اس لیٹرپر مال کی تعریف صادق آتی ہے، کیونکہ اس کے حصول کے لیے آدمی کی محنت اور مال دونوں چیزیں صرف ہوتی ہیں اور آج کل اس کو ایک قیمتی چیز سمجھا جاتا ہے، لہذا وہ شخص جس کے نام پر یہ لیٹر جاری کیاگیا ہواگر وہ آگے کسی شخص(خواه وہ سعودی ہو یا غیر سعودی) کو نفع کے ساتھ فروخت کرے تو اگرچہ وہ حکومت کے جائزقانون کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوگا، لیکن اس کی آمدنی حرام نہیں ہوگی۔
حوالہ جات
فقه البيوع للشيخ محمد تقي العثماني(ج:1، ص: 281)، مكتبة معارف القران: والواقع في هذه الرخصة أنها ليست عينا مادية ، ولكنها عبارة عن حق بيع البضاعة في الخارج أو شرائھا منه، فيتأتى فيه ماذكرنا في الاسم التجاري من أن هذا الحق ثابت إصالة، فيجوز النزول عنه بمال، وبما أن الحصول على هذه الرخصة من الحكومة يتطلب كلا من الجهد والوقت، والمال، وإن لهذه الرخصة صفة قانونية تمثلها الشهادات المكتوبة ويستحق بها التجار تسهيلات توفرها الحكومة لحامليها، فصارت هذه الرخصة في عرف التجار ذات قيمة كبيرة يسلك بها مسلك الأموال، فلا يبعد أن تلتحق بالأعيان في جواز بيعها وشرائها، ولكن كل ذالك إذا كان القانون يسمح بنقل هذه الرخصة إلى رجل أخر أما إذا كانت الرخصة باسم رجل مخصوص أو شركة مخصوصة ، ولا شبهة في عدم جواز بيعها؛ لأن بيعه حينئذ يؤدي إلى الكذب والخديعة، فإن المشتری یستعملها باسم البائع لا باسم نفسه، فلا يحل ذلك لما فيه من الكذب۔ حاشية ابن عابدين (4/ 501) دار الفكر للطباعة والنشر: مطلب في تعريف المال والملك والمتقوم قوله ( مالا أو لا ) بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم والتقوم يثبت بها بإباحة الانتفاع به شرعا۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد صاحب

مفتیان

مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب