021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تشہیری مقاصد کےلیے جاندار کی تصاویر بنوانےکاحکم
60825 جائز و ناجائزامور کا بیانکھیل،گانے اور تصویر کےاحکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء ِکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل جدید ترقی اورکمرشل دورمیں جہاں مختلف کمپنیاں اپنی حلال پراڈکس کی تشہیرپرلاکھوں روپے خرچ کرتی ہیں اورجدیدتشہیر(MARKETEING)میں بہت سی چیزوں کو مدِنظررکھ کراس طرح کی تشہیرکی جاسکتی ہے کہ کوئی جملہ ،تصوریر ،رنگ وغیرہ صارفین کے ذہنوں مین جگہ پکڑلے اورمدتوں تک انہیں اس پراڈکٹ کی یاد دہانی کراتی رہے۔لہذا جدید مارکیٹنگ کی ضروریات کو مدِ نظررکھتے ہوئے ارشاد فرمائیں کہ مختلف کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے دیگر شرعی تقاضوں مثلاًپردہ وغیرہ کا خیال رکھتے ہوئے ذی روح کی ویڈیو ز اورتصاویر (پمفلٹ ،بینرز،اور پینافلکس وغیرہ کی صورت میں ) الیکٹرانک سوشل اورپرنٹ میڈیا کے لیے بنواسکتی ہیں یانہیں؟ مثلاً بچوں کے بسکٹس کے لیے بچوں کو بسکٹس کھاتے ہوئے دکھانا یا گاڑیاں بیچنے والی کمپنیاں اپنی گاڑیاں بیچنے کے لیے ایک فیملی کو ان کی گاڑی خریدتے اورچلاتے ہوئی دکھانا تاکہ دیکھنے والوں کو وہ کمفرٹ شو ( (COMFORT SHOW کرواسکیں. تصویر بنوانے اور پرنٹ کرنے میں عوام اورخواص کا ابتلاءِ عام ہے اورکئی علماء تصویر کی تعریف کا اطلاق صرف مجسموں پر کرتے ہیں، جبکہ موجودہ عکسی پرنٹ کو وہ تمثیل کہتے ہیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مصنوعات کی تشہیر کے لیے جاندار کی پرنٹ شدہ تصویر بنوانا توجائزنہیں ہے،جس اختلاف کی طرف سوال میں اشارہ کیا گیا ہے بظاہربرصغیرکے تناظرمیں یہ بات کہی گئی ہےسویہ واضح رہے کہ اس خطے کے علماء کا اختلاف ڈیجیٹل تصویر کے بارے میں ہے،پرنٹ شدہ تصویر کے بارے میں نہیں ،پرنٹ شدہ تصویر کو پاک وہند کے تمام علماء ناجائز کہتے ہیں،اورابتلاءِ عام کی رو سے بھی پرنٹ شدہ تصویر جائز نہیں ہوسکتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فر ما یا تھا : جو بھی تصویر یا مجسمہ دیکھو اسے مٹا دو اور جو قبر اونچی دیکھو اسے برا بر کر دو، نیز فر ما یا قیا مت کے دن سب سے سخت عذاب تصویر بنانے والوں کو ہو گا، اسی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عا ئشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں پر دے پر بنی ہوئی تصویر کا سختی سے انکار فر مایا ۔ لہذا تشہیر کے لیے پرنٹ شدہ تصویر کا استعمال درست نہیں ۔ جہاں تک مصنوعات کی تشہیر کے لیے ڈیجیٹل تصویر بنوانے کا تعلق ہے تو اس میں علماءِ عصر کی تین رائے ہیں: پہلی رائے یہ ہےکہ ڈیجیٹل تصویر چونکہ تصویرنہیں بلکہ ظل یا عکس کے مشابہ ہے، لہذا تشہیر کے لیےاس کا استعمال جائزہوگا،بشرطیکہ عورت کی تصویر نہ ہو،سترچھپاہواہو، دوسری رائے یہ ہے کہ یہ عام پرنٹ تصویروں کی طرح حرام تصویرہے ،اس رائےکے مطابق تشہیری مقاصد کے لیے اس کا بنوانااوراستعمال کرنا جائزنہیں ہوگا،تیسری رائے یہ ہے کہ یہ اگرچہ تصویرہے، لیکن ضرورت کے وقت اس کااستعمال جائزہےجیسے جہاد کی ضروریات،تعلیمی ضروریات وغیرہ وغیرہ،ان تین آراء میں جس کی رائے پر زیادہ اعتمادہو اس پر عمل کیاجاسکتاہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ علماء کے اختلاف سے بچا جائے، اورتشہیری مقاصدکے لیے غیر ذی روح کی تصاویر سے استفادہ کیاجائے ۔
حوالہ جات
عن وهب بن عبد اللّٰه قال: ان النبی صلی اللّٰه عليه وسلم لعن المصور.(بخاری، رقم ٢٠٨٦) عن القاسم انه سمع عائشة تقول دخل علی رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم وقد سترت سهوة لی بقرام فيه تماثيل فلما راه هتكه وتلون وجهه وقال ا عائشة اشد الناس عذابا عند اللّٰه يوم القيامة الذين يضاهون بخلق اللّٰه قالت عائشة فقطعناه فجعلنا منه وسادة او و سادتين.(مسلم، رقم ٢١٠٧) عن عائشة انها اشترت نمرقة فيها تصاوير فلما راها رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم قام علی الباب فلم يدخل فعرفت او فعرفت فی وجهه الکراهية فقالت يا رسول اللّٰه اتوب الی اللّٰه والی رسوله فما ذا اذنبت فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم ما بال هذه النمرقة فقالت اشتريتها لك تقعد عليها و توسدها فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم ان اصحاب هذه الصور يعذبون ويقال لهم احيوا ما خلقتم ثم قال ان البيت الذی فيها الصور لا تدخله الملائكة. (مسلم، رقم ٢١٠٧) عن سعيد بن ابی الحسن قال کنت عند ابن عباس رضی اللّٰه عنهما اذ اتاه رجل فقال يا ابا عباس انی انسان انما معيشتی من صنعة يدی وانی اصنع هذه التصاوير فقال ابن عباس لا احدثك الا ما سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم يقول سمعته يقول من صور صورة فان اللّٰه معذبه حتی ينفخ فيها الروح وليس بنافخ فيها ابدا فربا الرجل ربوة شديدة واصفر وجهه فقال ويحك ان ابيت الا ان تصنع فعليك بهذا الشجر کل شیء ليس فيه روح (بخاری، رقم ٢٢٢٥) عن ابی زرعة قال دخلت مع ابی هريرة فی دار مروان فرای فيها تصاوير فقال سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم يقول قال اللّٰه عزوجل ومن اظلم ممن ذهب يخلق خلقا کخلقی فليخلقوا ذرة او ليخلقوا حبة او ليخلقوا شعيرة.(مسلم، رقم ٢١١١) عن مسلم بن صبيح قال کنت مع مسروق فی بيت فيه تماثيل مريم فقال مسروق هذا تماثيل کسری فقلت لا هذا تماثيل مريم فقال مسروق اما انی سمعت عبد اللّٰه بن مسعود يقول قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم اشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون. (مسلم، رقم ٢١٠٩) قال فی الشامیۃ: وظاہر کلام النووی فی شرح مسلم الاجماع علی تحریم تصویر الحیوان وقال وسواء صنعہٗ لما یمتھن او لغیر فصنعتہٗ حرام بکل حال لان فیہ مضاھاۃ لخلق اللہ۔ وسواءکان فی ثوب أو بساط أو درھم وإناء وغیرھا.(ج؍۱،ص؍۶۷۷) وفیہ ایضاً: تنبیہ: ھذا کلہٗ فی اقتتاء الصورۃ واما فعل التصویر فھو غیر جائز مطلقاً لانہٗ مضاھاۃ لخلق اللہ تعالیٰ کما مرّ۔ قال فی النھر جوّز فی الخلاصۃ لمن رأی صورۃ فی بیت غیرہ ان یزیلھا وینبغی ان یجب علیہ ولو استاجر مصوّراً فلا أجر لہٗ لان عملہ معصیۃ کذا عن محمد ۔ اھ (ج؍۱،ص؍۶۷۹) وفی حاشیۃ الاشباہ للحموی تحت مسئلۃ اجیر القصّار: أن عمل الاجیر منقول الیہ لأنہ عمل باذنہ کذا فی الولو الجیہ اھ (۲۷۹) ومقتضاہٗ أن عمل المصور ھناک منقول إلی مستأجرہ لکونہ بعمل باذنہ فلا وسعۃ فیہ اللّٰہم الاّ ان یکون کالمضطر إلی اکل الحرام وھو محل النظر فی صورۃ السوال فافہم۔ واللہ اعلم قال بدرالدین العینی: قال اصحابنا و غيرهم تصوير صورة الحيوان حرام اشد التحريم و هو من الکبائر و سواء صنعه لما يمتهن او لغيره فحرام بکل حال لأن فيه مضاهاة لخلق اﷲ و سواء کان فی ثوب أو بساط أو دينار أو درهم أو فلس أو إناء أو حائط و اما ما ليس فيه صورة حيوان کالشجر و نحوه، فليس بحرام و سواء کان فی هذا کله ما له ظل و ما لا ظل له و بمعناه قال جماعة العلماء مالك و الثوری و أبو حنيفة و غيرهم و قال القاضی إلا ما ورد فی لعب البنات وکان مالك يکره شراء ذلك.( ٢٢/ ٧٠)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب