021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ماں کا زندگی میں اولاد کے درمیان اپنی ذاتی رقم تقسیم کرنا
60831ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ واپس کرنے کابیان

سوال

میرا نام زرینہ بیگم زوجہ واحد علی مرحوم ہے،میری عمرتقریباً 74سال ہے ،میرے شوہرکا انتقال آج سے 34سال پہلے ہوگیاتھا میرے ماشاء اللہ گیارہ بچے ہیں، جن میں سے 4 بیٹے اور7بیٹیاں ہیں، تمام بچے شادی شدہ ہیں ،میرے پا س133گزپر تعمیرشدہ ایک مکان ہے جس کی دو منزلیں ہیں یہ مکان میرے نام پر ہے، میرے شوہرنے اپنی زندگی میں میرے حق ِمہر کی رقم سے ایک پلاٹ خریدا اورکرائے پردیدیاکرایہ دارنے اس پر عمارت بنوائی اورتعمیرکے اخراجات کرایہ میں سے کاٹ لیے، اس عمارت کو میں نے شوہرکے انتقال کے بعدبیچ دیااورسن دوہزار دو میں تعمیر شدہ مکان خریدلیا اس کے علاوہ میرے پاس 25لاکھ روپے کابینک بیلنس بھی ہے جو میں نے شوہر کے انتقال کے بعد ایک پلاٹ قسطوں پرلیااورچند مہینوں پہلے 25لاکھ میں بیچ کرحاصل کیا ،میرے 3 بیٹے مندرجہ بالامکان میں رہتے ہیں یعنی ایک بیٹا اورمیں پہلے منزل پر رہتے ہیں اوردوبیٹے دوسری منزل پر،دوسری منزل دونوں بیٹوں نے خود اپنے پیسوں سے تعمیرکی ہے ،چوتھا بیٹا سرکاری ملازم ہے وہ اپنے سرکاری گھر میں رہتاہے مندرجہ بالامکان کے گراؤنڈ فلوپر دو کمروں کا پورشن کرایہ پردیاہواہے اورچار دکانیں ہیں جن میں سے دو دکانیں کرایہ پر دی ہوئی ہیں اوردو دکانیں میرے بیٹوں کے استعمال میں ہیں جس کے کرائے کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے، یہ دونوں دکانیں میرے بیٹوں کی روزی کا ذریعہ ہیں میرے دو بٹیے اپنی ضرورت کے تحت مجھ سے پیسے مانگ رہے ہیں تاکہ اپنے کاروبارمیں لگاسکیں، کیا میں 25لاکھ میں سے کچھ یا ساراپیسہ کسی ایک یادوبیٹوں کودے سکتی ہوں ؟ امکان یہ بھی ہے کہ باقی اولادیں بھی تقاضۃ کریں ، میرایہ بھی دل چاہتاہے کہ یہ میں کسی مسجد کی تعمیر، مدرسہ کی تعمیر، کنویں کی کھدائی وغیرہ میں لگادوں جوکہ ہمارے لیے صدقہ جاریہ ہوجائے برائے مہربانی مکان اورپیسوں کا اولادوںمیں حصے کے مطابق تقسیم کا طریقہ کارواضح کردیں، جزاکم اللہ خیراً۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زندگی میں اولاد کو کچھ دینا ہبہ ہے، میراث کی تقسیم نہیں ،کیونکہ میراث موت کے بعدتقسیم کی جاتی ہے اور کسی کو کوئی چیز ہبہ کرنا اورنہ کرنا یہ بندے کا اختیاری عمل ہے ، اس میں وہ شرعاً مجبورنہیں، تاہم اگرکوئی اپنی خوشی سے اولاد کو زندگی میں کچھ دینا چاہے تو شرعاً اس کی بھی اجازت ہے اوراس میں پھر افضل یہ ہے کہ تمام بیٹوں اوربیٹیوں کوبرابرسرابر دے اوران میں تفریق نہ کرے ، تاہم اگر اولاد میں سےکسی کو تکلیف دینے کی نیت نہ ہو اور بعض کوزیادہ دینے کی کوئی جائزوجہ مثلاً :فرمانبرداری، خدمت، علم ،فقروغیرہ ہوتو کمی بیشی میں بھی کوئی حرج نہیں۔ لہذ مسئولہ صورت میں آپ کے پاس موجود بینک بیلنس صرف آپ کی ملک ہے، آپ کی زندگی میں بچوں کا اس میں کوئی حق نہیں،اگر آپ تقسیم نہیں کرنا چاہتی تو شرعاً اس پر آپ مجبورنہیں اوربچے اس کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتے ،ہاں اگرآپ اپنی خوشی سےتقسیم کرنا چاہتی ہیں تو اس کا بہترطریقہ یہ ہے کہ جتنا حصہ آپ اپنے پاس رکھناچاہتی ہیں یاکسی رفاہی کام میں لگانا چاہتی ہیں وہ الگ کرکے باقی رقم کے بیٹوں اوربیٹیوں کی مجموعی تعداد کےبقدر برابرحصے بنائیں اور ہربیٹے اوربیٹی کو ایک ایک حصہ الگ الگ دیدیں اوراس پر اس کا قبضہ بھی کرادیں،قبضہ کے بغیر یہ ہبہ مکمل اورنافذ نہیں ہوگا۔
حوالہ جات
السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي - (ج 6 / ص 176) عن حصين عن عامر قال سمعت النعمان بن بشير يقول وهو على المنبر : أعطانى أبى عطية فقالت له عمرة بنت رواحة : لا أرضى حتى تشهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال فأتى النبى -صلى الله عليه وسلم- فقال : إنى أعطيت ابن عمرة بنت رواحة عطية وأمرتنى أن أشهدك يا رسول الله قال :« أعطيت سائر ولدك مثل هذا ». قال : لا قال :« فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم ». قال فرجع فرد عطيته. رواه البخارى فى الصحيح عن حامد بن عمر وأخرجه مسلم من وجهين آخرين عن حصين. السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي - (ج 6 / ص 177) عن ابن عباس قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- :« سووا بين أولادكم فى العطية فلو كنت مفضلا أحدا لفضلت النساء ». وفی خلاصة الفتاوی ج: 4ص: 400 رجل لہ ابن وبنت اراد ان یھب لھما فالافضل ان یجعل للذکرمثل حظ الانثیین عندمحمد وعند ابی یوسف رحمہ اللہ بینھماسواء ھو المختارلورود الآثار. رد المحتار - (ج 24 / ص 42) وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب ، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار ، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم. رد المحتار - (ج 24 / ص 42) ( قوله وعليه الفتوى ) أي على قول أبي يوسف : من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد رملي. رد المحتار - (ج 24 / ص 42) وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب ، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار ، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم. رد المحتار - (ج 24 / ص 42) ( قوله وعليه الفتوى ) أي على قول أبي يوسف : من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد رملي . الدر المختار للحصفكي - (ج 5 / ص 256-258) (و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) كما سيتضح.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب