021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تنخواہ لیکربلاضرورت مسجد میں پڑھانا
60827.3وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء ِکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید ایک دینی مدرسہ کا مہتمم ہے اورایک مسجد کا امام اورمتولی بھی ہے عمرو چار،پانچ سال سے اس مسجد میں امامت کا فریضہ سرانجام دے رہاہے اوراس تمام عرصہ میں اس نے کسی بھی قسم کی تنخواہ وصول نہیں کی ،زید جو اصل امام اورمتولی ہے اس نے مسجد کے کاغذات عمرو کے حوالے کئےاورکاغذات میں صاف لکھاکہ میرا اس مسجد سے کوئی تعلق نہیں ہے توجانے اورمسجد کا خرچہ جانے، میری اب کوئی ذمہ داری نہیں ہے ،عمرو نےمسجد کی حالت کچھ درست کی توزیدمذکور نےجس کا مدرسہ ایک الگ جگہ پرتھا، جہاں بچے پڑھتےتھے وہاں سے مدرسہ کے بچوں کو اٹھاکرمسجد میں پڑھنے کے لیے بٹھادیا،بچے مسجد کا تقدس پامال کرتے تھے ،کبھی پیشاب کرتے تھےاورکبھی کھیلتےتھےجب استاذ کلاس میں نیں ہوتاتھا،اس صورتِ حال کودیکھ کرعمرو نے بچوں کو مدرسہ کی جگہ واپس بٹھادیا،تو کیا اب زید کا کوئی شرعی حق بنتاہے کہ وہ ان بچوں کو واپس اس مسجد میں بٹھائے،جبکہ اس کااب مسجد سے کوئی تعلق نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسجد کو مستقل مدرسہ بنانا تو صحیح نہیں لانہ مخالف لنص الواقف ، البتہ اس میں عارضی طور پر تعلیم دینا درجِ ذیل شرائط کی پابندی کرتے ہوئے جائز ہے : 1۔کوئی واقعی ضرورت ہوجیسے دوسری جگہ دستیاب نہ ہویادوسری جگہ سخت گرمی یا سردی ہووغیرہ وغیرہ ۲:۔ بچے ہوشیار اور عقل مند ہوں ، مسجد کا پورا احترام کرتے ہوں ، مسجد کو گندا اور ناپاک نہ کرتے ہوں۔ ۳:۔ استاذتنخواہ نہ لیتاہویالیتاہومگراس کی نیت صرف تعلیم دینے کی ہو، محض پیشہ اورتنخواہ نہ ہو۔ 4۔ اعتکاف کی نیت سے بیٹھتے ہوں ۔ صورتِ مسئولہ میں جب تعلیم کے لیے مدرسہ موجود ہے اوربچے مسجد کے تقدس کے خیال بھی نہیں کرتے کبھی اس میں پیشاب کردیتےہیں اورکبھی کھیلتے ہیں جیسے کہ سائل نے لکھاہے تو ان حالات میں مسجد میں پڑھاناجائز نہیں ،لہذا زید کے لیے بچوں کو مسجد میں بٹھانادرست نہیں۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 445) مراعاة غرض الواقفين واجبة. وفی الدر المختار : ویحرم ادخال صبیان ومجانین حیث غلب تنجیسھم و الا فیکرہ . حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 656) (قوله ويحرم إلخ) لما أخرجه المنذري " مرفوعا «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم، وبيعكم وشراءكم، ورفع أصواتكم، وسل سيوفكم، وإقامة حدودكم، وجمروها في الجمع، واجعلوا على أبوابها المطاهر» " بحر...... والمراد بالحرمة كراهة التحريم لظنية الدليل. وأما قوله تعالى - {أن طهرا بيتي للطائفين} [البقرة: 125]- الآية فيحتمل الطهارة من أعمال أهل الشرك تأمل؛ وعليه فقوله وإلا فيكره أي تنزيها تأمل. و فی البحر الرائق ،ج :۲، ص:۳۵ أما ھؤلاء المکتبون الذین یجتمع عندھم الصبیان و اللغط فلا و لو لم یکن لغط لأنھم فی صناعۃ لاعبادۃ اذ ھم یقصدون الاجارۃ لیس ھو للّٰہ بل للارتزاق ومعلم الصبیان القرآن کالکتاب ان کان لأجر لا وحسبۃ لا بأس بہ .وکذا فی الأشباہ والنظائر ،ص:۲۴۱۔فتاوی عثمانی 2/746 ’’ أما المعلم الذی یعلم الصبیان بأجر إذا جلس في المسجد یعلم الصبیان لضرورۃ الحر و غیرہ لا یکرہ ‘‘( خلاصۃ الفتاوی: ۱/۲۲۹ ، الفتاوی الھندیۃ : ۱/۱۵۷ ، از جدید فقہی مسائل . و أما المعلم الذی یعلم الصبیان بأجر اذا جلس فی المسجد یعلم الصبیان لضرورۃ الحر أو غیرہ لا یکرہ وفی نسخۃ القاضی الامام و فی اقرار العیون جعل المسئلۃ المعلم کمسئلۃ الکاتب والخیاط فانکان یعلم حسبۃ لا بأس بہ وان کا بأجرہ یکرہ الا اذا وقع ضرورۃ ۔ وکذا فی الھندیۃ ،ج:۱،ص:۱۱۰ و فتح القدیر ،ج:۱،ص:۳۶۹ والفتاویٰ الخانیۃ ،ج:۱،ص:۶۵ و الأشباہ والنظائر ،ج:۲،ص:۲۳۱ . الفتاوى الهندية (5/ 321) ولو جلس المعلم في المسجد والوراق يكتب، فإن كان المعلم يعلم للحسبة والوراق يكتب لنفسه فلا بأس به؛ لأنه قربة، وإن كان بالأجرة يكره إلا أن يقع لهما الضرورة، كذا في محيط السرخسي.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب