021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جہیز کے نام پر بے جا اصراف کی ممانعت کے قانون کی شرعی حیثیت۔ اور دیگر ذیلی سوالات
60919نکاح کا بیانجہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان

سوال

معاشرہ میں جہیز دینے اور اس کے نام پر بے جا اسراف اور رسومات کے خاتمہ کے لئے محکمہ ترقیٔ نسواں حکومتِ سندھ ایک قانون مرتب کر رہی ہے۔ جس کے لئے آپ کی قیمتی سفارشات جو کہ قرآن و سنہ اور شریعت کے مطابق ہوں درکار ہیں، اس سلسلے میں درج ذیل سوالات کے جوابات درکار ہیں: 1. کیا قرآن و سنہ اور شریعت کے تحت جہیز کی مالیت کی کوئی حد مقرر کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ 1) کیا اس پر معاشرتی اقدار اور عرف کا لحاظ رکھا جائے گا؟ 2) ۔ کیااس سلسلےمیں جہیزکی کوئی مقداربصورت سونایاروپیہ مقررکرسکتے ہیں؟ مثلاً دو تولہ سونے یا -/50000 روپے مالیت تک۔ 3) کیا اس سے زیادہ کا جہیز دینے کے خلاف قانون بنایا جائے؟ 2. کیا نکاح نامہ کے ساتھ جہیز کی تفصیل، تحائف، رقم یا کوئی بھی فہرست منسلک کی جا سکتی ہے یا نہیں؟اور کیا یہ فہرست نکاح نامہ کے ساتھ لازمی منسلک کی جائے؟ 3. خلع یا طلاق کی صورت میں خاتون کو دئے گئے جہیزاور حق مہر کے لئے کیا احکامات ہیں؟ اور کیا ان سب پر خاتون کا حق ہو گا؟ 4. شادی اور اس سے متعلق دیگر رسومات(مایوں، مہندی) کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور اس کے اخراجات پر تجاویز دیں۔ آپ سے متأدبانہ گزارش ہے کہ مندرجہ بالا سوالنامہ کے تحت مفصل اور جامع سفارشات صادر فرمائیں تاکہ جامع قانون مرتب کیا جا سکے، جو کہ تمام مکتبۂ فکر کے لوگوں کے لئے قابلِ قبول ہو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوالات کے جوابات سے پہلے جہیز کے معنیٰ، تاریخی پس منظر اور شرعی حیثیت سے متعلق کچھ باتیں تمہید کےطور پر عرض کی جاتی ہیں۔ لغوی معنیٰ (جہیز اور جھاز): عربی زبان میں "جَھَاز" ان اشیاء کو کہا جاتا ہے جن کی کسی شخص کو ضرورت ہوتی ہے(دیکھئے حوالہ نمبر 1۔2۔3)، جبکہ اردو میں "جہیز" کا لغوی معنیٰ ہے"وہ سازو سامان جو عروس(یعنی دلہن) کو دیا جاتا ہے"(دیکھئے حوالہ نمبر 4)، اور "تجھیز" کا معنی ہے"کسی کو سامان تیار کر کے دینا"، جیسا کہ قرآنِ پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ" [يوسف/59]،"اور جب (یوسف نے) ان کا سامان تیار کر دیا"۔ تاریخی پس منظر: جہیز(Dowry) کا ذکر دنیا کے قدیم ترین محفوظ قانون(Code of Hammurabi)میں بھی ملتا ہے، یہ قانون سلطنت بابل (Babylon)میں1754 قبلِ مسیح میں وضع کیا گیا(دیکھئے حوالہ نمبر 5)،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانے سے نوعِ انسانی اس سے متعارف ہے، لیکن مختلف زمانوں اور مختلف ادوار میں اس کی شکل اور مقصد مختلف رہا، مثلاً مذکورہ قانون کے مطابق اس دور میں لڑکیوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا، بلکہ اس کی جگہ ان کو شادی کے وقت والدین اپنی حیثیت کے مطابق کچھ دے دیا کرتے تھے۔کچھ تاریخی روایات کے مطابق گیارہویں صدی عیسوی تک برصغیر پاک و ہند میں اس رسم کا رواج نہ تھا، لیکن اس کے بعد اس خطے میں بھی تیزی کے ساتھ اس رسم کا رواج ہو گیا، حتیٰ کہ اب تو اس کا باقاعدہ مطالبہ بھی کیا جاتا ہے، قدیم اور جدید تحریرات میں اس کو ایک رسم(Custom)لکھا جاتا ہے،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جہیز کسی آسمانی مذہب کی تعلیمات میں شامل نہیں ، بلکہ یہ معاشرے میں خود بخود پروان چڑھنے والی رسومات میں سے ایک رسم ہے۔ کیا جہیز دینا سنت ِ نبویﷺہے؟ لغوی اعتبار سے "سنت" کا معنی ہے"طریقہ یا عادت"(دیکھئے حوالہ نمبر 6)، جبکہ اصطلاحِ شرع میں سنت "اس راستے یاطریقے کو کہا جاتا ہے جس کو (بغیر فرضیت یا وجوب کے)اختیار کیا گیا ہو"، یا "ایسے طریقے کو کہا جاتاہےجس پر آپﷺ نے مواظبت کی ہویعنی ہمیشہ کیا ہو، لیکن اس کے وجوب کی کوئی دلیل نہ ہو"، اسی طرح بعض نے سنت کی تعریف یوں بھی کی ہے کہ" ایسا کام جس کو اہتمام سے کرنا مطلوب ہو، لیکن وہ واجب یا فرض نہ ہو"(دیکھئے حوالہ نمبر 7)۔ جبکہ دوسری جانب اگر اسلامی تعلیمات کو دیکھا جائے تو ہماری معلومات اور تلاش کے مطابق آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں صرف دو واقعات ایسے ملتے ہیں کہ جن میں رخصتی کے وقت عورت کو اس کے گھر والوں کی طرف سے کوئی معمولی سازوسامان دیا گیا،ان دو میں سے پہلا واقعہ حضرت زینبؓ (بنتِ رسول اللہ ﷺ) کے قیمتی ہار کا ہے، حضرت زینبؓ غزوۂ بدر کے موقع پر مکہ میں تھیں، ان کے شوہر کو بدر میں مسلمانوں نے قید کر لیا تو حضرت زینبؓ نے ایک قیمتی ہار ان کو رہا کروانے کے لئے بھیجا، اس ہار کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ یہ ہار حضرت خدیجہؓ نے انہیں ان کی شادی کے موقع پر دیا تھا(دیکھئے حوالہ نمبر 8)۔لیکن اس واقعہ سے مروجہ جہیز کو سنت ہر گز نہیں کہا جا سکتا، اس لئے کہ حضرت زینبؓ کو ہار حضرت خدیجہؓ نے اپنی مالی حیثیت (چونکہ وہ مکہ کی مالدار خاتون تھیں) کے مطابق تحفۃً دیا تھا، جس طرح ایک ماں اپنی بیٹی کوکسی خوشی کے موقع پر کوئی تحفہ دیتی ہے، اسی طرح حضرت خدیجہؓ نے بھی اپنی بیٹی کو ان کی شادی کے موقع پر یہ ہار کا ہدیہ دیا تھا۔ دوسرا واقعہ جس کو جہیز کے ثبوت کے لئے اکثرو بیشتر پیش کیا جاتا ہے، وہ حضرت فاطمہ ؓ کی رخصتی کا ہے، اس واقعہ میں روایات میں "جَھَّزَ" کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں ،نیز سامان کی تفصیل بھی بیان ہوئی ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی لختِ جگر کو کیا کیا دیا تھا، لیکن درحقیقت اس واقعہ کا بھی مروجہ جہیز سے کوئی تعلق نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے جب حضرت علیؓ سے پوچھا کہ تمہارے پاس مہر دینےکے لئےکیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ایک زرہ اور ایک گھوڑاہے، آپ ﷺ نے فرمایاکہ گھوڑا توتمہاری ضرورت ہے، البتہ زرہ بیچ دو، حضرت علیؓ نے 480 دراہم میں وہ بیچ کر رقم آپ ﷺ کے سامنے رکھ دی، آپﷺ نے اس سے مٹھی بھر کر خوشبو اور دوسری استعمال کی چیزیں خریدنے کا حکم فرمایا(دیکھئے حوالہ نمبر 10)، مگر اس واقعہ کی حقیقت یہ نہیں کہ آپ ﷺ نے حضرت فاطمہؓ کو جہیز دیا، کیونکہ آپ ﷺ نے اپنی رقم خرچ فرما کر کچھ نہیں دیا تھا، باقی آپ ﷺ نے خود اپنی سرپرستی میں وہ چند ضروری اشیاء خریدوانے کا اہتمام کیوں فرمایا؟حضرت علیؓ خود جو چاہتے خرید لیتے؟ تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپﷺ جہاں حضرت فاطمہؓ کے والد تھے وہاں حضرت علیؓ کے سرپرست بھی تھے، کیونکہ ہجرت سے پہلےآپﷺ نے اپنے چچا ابوطالب سے معاشی بوجھ ہلکا کرنے کے لئے حضرت علیؓ کو اپنی پرورش میں لے لیا تھا، اور نکاح کے وقت حضرت علی ؓ کے گھر میں کچھ نہ تھا،اور حضرت علیؓ چھوٹی عمر کے اور ناتجربہ کار تھے، آپﷺ کے سوا مدینہ منورہ میں حضرت علیؓ کا کوئی سرپرست نہیں تھا،آپﷺ ہی ان کے سرپرست تھے، اس لئے آپﷺ نے حضرت علیؓ سے ان کی زرہ بیچنے کا کہا اور ملنے والی رقم سے سرپرست ہونے کی حیثیت سے گھر کے سازو سامان کا انتظام فرمایا، جس کی تفصیل دوسری روایات میں موجودہے جس سے آج کل کے مروجہ جہیز کو ثابت اور مسنون قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے، حالانکہ روایات کی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہؓ کو جو سازوسامان دیا گیا تھا اس کی حقیقت، آج کل کے مروجہ جہیز سے اس طرح مختلف تھی کہ حضرت فاطمہؓ کو دیا جانے والا سامان صرف ناگزیر ضروریات پر مشتمل تھا اور وہ بھی آپﷺ نے خود اپنی طرف سے نہیں بلکہ حضرت علیؓ سے مہر کی رقم وصول کر کے اس رقم سے دلوایا تھا۔اس سے واضح ہے کہ وہ جہیز ہرگز نہیں تھا۔ اگر حضرت فاطمہ ؓ کے اس واقعہ میں یہ چیزیں جہیز ہوتیں اور جہیز کا دینا کوئی سنت ہوتا تو سیرتِ رسول ﷺ اور سیرتِ صحابہ کرامؓ میں صرف دو واقعات نہ ملتے، اس دور میں شادی کے بے شمار واقعات ہوئے، خود آپ ﷺ نے 9 نکاح فرمائے، اسی طرح اپنی 4 بیٹیوں کے نکاح کروائے، اور ان کی رخصتی کی، لیکن اس کے باوجود صرف دو واقعات ملتے ہیں، جن میں ایک میں صرف ایک ہار اور دوسرے میں گھر کی ناگزیر ضرورت کی چیزیں مہر کی رقم سے دلوانا اس بات کی دلیل ہے کہ جہیز دینے کو اصطلاحی معنیٰ میں آپﷺ کی سنت قرار نہیں دیا جا سکتا،اور نہ ہی ان واقعات کو مروجہ جہیز کی رسم کے ثبوت کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے۔ مروجہ جہیز کی خریداری مہر کی رقم سے نہیں کی جاتی بلکہ لڑکی کے خاندان والے اپنی طرف سے انتظام کرتے ہیں، نیز چونکہ یہ ہندوانہ رسم بھی ہے اور ہندو معاشرے میں عورت کو جہیز دے کر میراث سے بے دخل کر دیا جاتا ہے، اس لئے ہمارے ہاں بھی اب یہی رائج ہو چکا ہے کہ لڑکی کو جہیز دے کر میراث سے بے دخل کر دیا جاتا ہےاور جہیز کا انتظام بھی مہر کی رقم سے نہیں کیا جاتا بلکہ لڑکی والے اپنی طرف سے کرتے ہیں، جبکہ حضرت فاطمہؓ کے واقعہ میں ایسی کوئی بات نہ تھی، لہذا حضرت فاطمہؓ یا حضرت زینبؓ کے واقعہ سےمروجہ جہیز کو ثابت کرنا بالکل درست نہیں،تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ اگر یہ مروجہ خرابیاں نہ پائی جائیں تو اپنی اصل کے اعتبار سے جہیز کی حقیقت ایک ہدیہ اور تحفہ کی ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ جہیز کی شرعی حیثیت: اگر جہیز پر اس حد تک عمل ہوتاکہ "ایک بیٹی کی شادی کے موقع پر اس کے والدین اور قریبی رشتہ دار رخصتی کے موقع پراسےاپنی دلی خوشی اور مالی حیثیت کے مطابق کچھ سازوسامان دے دیں جو اس کے لئے آنے والی زندگی میں خانگی امور سر انجام دینے میں معاون ہو"، تواسے ہدیہ ، تحفہ اور صلہ رحمی قرار دے کر اس کی گنجائش دی جا سکتی تھی، لیکن مروجہ جہیز میں یہ نیت (ہدیہ، صلہ رحمی)کارفرما نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک رواج بن چکا ہے، جس کا لڑکے والوں کی جانب سے عموماً مطالبہ کیا جا تا ہے، اور اگر مطالبہ نہ بھی کیا جائے تو بھی اس کی طمع اور پوری امید ہوتی ہے، اگر توقع کے مطابق جہیز نہ آئے تو لڑکی کو بات بات پر طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس بنا پر لڑکی والوں کی طرف سے اس پر مجبوراً عمل کیا جاتا ہے،نیز جمہور فقہاءِ امت ؒ کا اس بات پر اجماع ہے کہ جہیز لانا عورت پر لازم نہیں، بلکہ مرد کے ذمہ واجب ہے کہ وہ گھر کے سازو سامان کا بندوبست کرے(دیکھئے حوالہ نمبر 11)،لہذا مروجہ جہیز کے درج ذیل مفاسد کی بنا پربالخصوص ایک اسلامی معاشرے کو اس خرابی سے پاک کرنا نہ صرف مستحسن، بلکہ ضروری بھی ہے۔ مروجہ جہیز کی خرابیاں: مروجہ جہیز کی رسم میں کئی خرابیاں ہیں،ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں: i. شان و شوکت یا اپنی مالداری کا اظہار کرنا۔ ii. نمو دو نمائش، شہرت اور تفاخر کا اظہار۔ iii. لڑکی والوں سے زیادہ اور عمدہ جہیز کی تمنا رکھنا، اور نہ ملنے کی صورت میں لڑکی کو طعنے دینا۔ iv. زیادہ جہیز لانے کی بنا پر بعض اوقات لڑکی کا اِترانا اور غروروتکبر میں مبتلا ہونا۔ v. اسراف و تبذیر کی حد تک اس کا اہتمام۔ vi. صرف جہیز دے کر لڑکی کووراثت سے محروم کرنے کا جذبہ۔ vii. محض ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی رسم کے طور پر دینا۔ viii. عدم استطاعت کے باوجود قرض لے کر اس کا اہتمام کرنا، بعض مرتبہ یہ قرضے سودی بھی ہوتے ہیں۔ ix. جہیز کی استطاعت نہ ہونے کی بنا پر شادیوں میں غیر ضروری تأخیر جو بہت سے گناہوں اور معاشری بگاڑ کا باعث ہے۔ x. زیادہ جہیز کی صورت میں لڑکی والوں کا لڑکے والوں سے زیادہ مہرکا مطالبہ، جس کی بنا پر نکاح ایک عبادت کی بجائے عقدِ تجارت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ xi. اس جہیز کی خرابی کی بنا پر والدین گھر میں بچی کی پیدائش پر ہی ناخوش ہوتے ہیں، اور بچی کی پیدائش ہی سے جہیز کی فکر لگ جاتی ہے۔ مروجہ رسمِ جہیز اور قانون سازی: اس میں دو رائے نہیں کہ مروجہ جہیز کی رسم ایک انفرادی معاملہ نہیں بلکہ ایک معاشرتی اور اجتماعی مسئلہ ہے،جس پر عمل صرف اپنی دلی خواہش کی تکمیل میں نہیں کیا جاتا، بلکہ ایسا بھی ہوتا ہےکہ معاشرتی رسوم سے مجبور ہو کر والدین اپنی لختِ جگر کو سسرال اور دوسرے لوگوں کے طعنوں سے محفوظ کرنے کے لئےاس کا نہ چاہتے ہوئے بھی انتظام کرتے ہیں، جب کوئی مسئلہ ایسا ہو کہ جس میں انفرادی کی بجائے، اجتماعی اور معاشرتی پہلو زیادہ غالب ہوتو (ہماری رائے کے مطابق) قانون سازی اگرچہ کافی حد تک مفید ہو سکتی ہے،مگر صرف قانون سازی اس مسئلے کا مکمل حل نہیں،بلکہ ہر جہت اور ہر پلیٹ فارم (مثلاً پرنٹ اورالیکٹرونک میڈیا، سوشل میڈیا، منبر و محراب، تعلیمی و سرکاری اداروں، فلاحی انجمنوں) سے بیک وقت اس کے خلاف آواز اٹھائی جائے تو اس طرح اس کے برےاثرات کو معاشرے سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال اسلامی تعلیمات، آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ،صحابہ کرام ؓ کے طرزِ عمل، فقہاءِ اسلام کی آراء اور جہیز کے مفاسد کو سامنے رکھتے ہوئےجہاں تک مروجہ جہیز کے خلاف قانون سازی کا تعلق ہےتو بلاشبہہ یہ ایک قابلِ تحسین عمل ہے اوریہ قانون سازی ایک سنگِ میل (Milestone)کا کام دے سکتی ہے بشرطیکہ اس کے نفاذ میں بھی اخلاص اور بھرپور کوشش شامل ہو۔ نیز جہیز کے مفاسد صرف ایسے نہیں جو صرف دینِ اسلام کے خلاف ہوں ، بلکہ ان میں ایسی معاشرتی برائیاں ہیں جن کا ادراک کرتے ہوئے بھارت نے 1961ء میں جہیز کے خلاف ایک قانون(Dowry Prohibition Act, 1961) نافذ کیا، جس کے بارے میں اگرچہ ان کا تجزیہ یہ ہے کہ اس سے بالکلیہ وہاں سے اس رسم کے مفاسد کا خاتمہ نہ ہو سکا، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اس قانون کے نفاذ سے ان مفاسد میں کمی ضرور آئی ہے۔ اس تمہید کے بعدآپ کے پوچھے گئے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں: 1. کیا قرآن و سنت اور شریعت کی روشنی میں جہیز کی کوئی مقدار مقرر کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ باپ کا اپنی بیٹی کو رخصتی کے موقع پر جہیز دینا اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہدیہ، تحفہ اور صلہ رحمی ہے، لیکن اگر اسلامی معاشرے میں لوگ کسی جائزامر کو واجب کادرجہ دے دیں اوراس میں ایسی قیود اور پابندیاں شامل کر لیں جو معاشرے میں عدمِ توازن، ناانصافی اور دیگر معاشرتی خرابیوں کا باعث بن رہی ہوں تو حکومتِ وقت کو اس کی روک تھام کے لئے قانون سازی کا اختیار ہوتا ہے، چونکہ موجودہ دور میں جہیز کی مروجہ رسم کو شادی کا ایسا جزء لازم سمجھا جانے لگاہے کہ غریب سے غریب آدمی بھی قرض کا بھاری بوجھ اٹھا کرمطلوبہ یا مروجہ مقدار میں جہیز کو پورا کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے اور جہیز کا انتطام نہ ہونے کی وجہ سےمعاشرے کا غریب طبقہ اپنی بچیوں کی شادی میں غیر ضروری تاخیر کرتا ہے، جس سے کئی معاشرتی خرابیاں جنم لیتی ہیں،اس بنا پر حکومت جہیز کے لئے قانون سازی کر کےاس کی کوئی حد مقرر کر سکتی ہے۔ شریعت میں "سداً للذرائع"(یعنی ان کاموں پر پابندی لگانا جو مفاسد کا ذریعہ بنتے ہوں، خواہ وہ کام جائز ہی کیوں نہ ہوں) کا ایک مستقل باب ہے، کنزالعمّال کی ایک روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں بازار میں حاطب بن ابی بلتعہؓ کو دیکھا جو کشمش بہت سستے داموں فروخت کر رہےتھے، تو آپؓ نے ان سے فرمایا کہ یا تو نرخ بڑھاؤ(تاکہ بازار کے عمومی ریٹ کے برابر ہو جائے)، یا پھر اپنا سامان اپنے گھر لے جاؤ(دیکھئے حوالہ نمبر 12)۔حضرت عمرؓ کا یہ فیصلہ اس لئے تھا کہ بازار کے ریٹ میں عدمِ استحکام نہ آئے، حالانکہ اصولی طور پر کوئی شخص اپنی چیز کسی بھی دام میں فروخت کر سکتا ہے، اسی طرح کلامِ فقہاء میں بھی اس کی بیشمار مثالیں ملتی ہیں، لہذا حکومتِ وقت کو شرعاً اس کی اجازت ہے کہ وہ اس قبیح رسم کے خلاف شریعت کے قوانین کی روشنی میں قانون سازی کرے۔ 1(1)۔ کیا اس پر معاشرتی اقدار اور عرف کا لحاظ رکھاجائے گا؟ درحقیقت جہیز ایک معاشرتی مسئلہ ہی ہے، اس کا تعلق رسم و رواج اور عرف سے ہے ،لہذا جوعرف اور معاشرتی اقدار مروجہ جہیز کی قبیح رسم کے مفاسد میں معاون ہوں یا ذریعہ بنتی ہوں، ان معاشرتی اقدار اور عرف کا تو لحاظ نہ رکھا جائے اور ان کے خلاف ممکنہ حد تک قانون سازی کی جائے، البتہ ان کے علاوہ جو معاشرتی اقدار ہوں ان کے وجود کو برقرار رکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ ان میں کوئی مفسدہ نہ ہو۔ 1(2)۔ کیا اس سلسلے میں جہیز کی کوئی حدبصورت سونا یا روپیہ مقرر کر سکتے ہیں؟مثلاً دو تولہ سونا یا -/50000 روپے کی مالیت تک۔۔ اس سوال کے جواب سے پہلے تمید کے طور پر یہ بات عرض کی جاتی ہے کہ اللہ رب العزت کا نظام ایسا ہے کہ اس نے ہر فن کے لئے کچھ افراد پیدا کئے ہیں، ہماری فیلڈ شرعی احکام بتانا ہے، اس تحریر میں ہم نے مذکورہ مسئلے پر آپ کے پوچھے گئے سوالات کا قرآن و سنت اور فقہاء امتؒ کے اقوال کی روشنی میں جواب دینے کی کوشش کی ہے،اب یہ آپ کا کام ہے کہ آپ ان احکامات کی روشنی میں پاکستانی معاشرے کے مطابق اس کی مؤثر قانون سازی کی بھرپور کوشش کریں، جہاں تک شرعاً اجازت کا تعلق ہے تو حکومتِ وقت اس رسم کے خاتمے کے لئے اس پر مکمل پابندی بھی لگا سکتی ہے، اس کی ایک ایسی حد بھی مقرر کر سکتی ہےجس پر عمل کرنا معاشرے کے تمام طبقات کے لئے بسہولت ممکن ہو، اسی طرح لڑکی کے والدین کی مالی حیثیت کے مطابق مختلف طبقات (غریب، متوسط اور اعلیٰ) کے لئے مختلف مقداریں بھی طے کر سکتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ مقدارمثلاً 50000روپے کی مالیت مناسب ہے، اس سے زیادہ کی کسی کو اجازت نہ ہو، قانونی ماہرین کی مشاورت سے ایسا قانون بنانے کی کوشش کی جائے جو قابلِ نفاذ اور قابلِ عمل ہو۔ مروجہ جہیز کی خرابیوں کو دور کرنے کے لئے کی جانے والی قانون سازی کا اہم اقدام جہیز کی ممانعت، یا اجازت کی صورت میں مالیت کی حد بندی کےمتعلق ہی ہے، پہلے درجے میں تو یہ کوشش کی جائے کہ اس رسم پر مکمل پابندی ہو، تاکہ اس کا امکان ہی باقی نہ رہے، کیونکہ یہ ایک رسم ہے اور اس کی وجہ سے لڑکیوں کو میراث سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے، حالانکہ میراث میں لڑکیوں کو حصہ دینا فرضِ عین ہے، نیزاگر مشروط اجازت دی جائے تو یہ احتمال ہے کہ لوگ کسی حیلے بہانے سےبھاری جہیزلینے یا دینے کی کوشش کریں گے، اور نہ دینے کی وجہ سے لڑکی کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنائیں گے۔ مکمل پابندی کا امکان اگر کسی بنا پر نہ ہو توایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ لڑکی کورخصتی کے موقع پر سازو سامان دینے کی بالکل اجازت نہ ہو(جیسا کہ مروجہ جہیز میں ہوتا ہے)، تاہم بعد میں نقد یا اس وقت کی ضرورت کے اعتبار سے کسی حد تک سازو سامان دینے کی گنجائش دی جائے، اور ایک آخری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ مالیت کی حد (مثلاً 50000 روپے) مقرر کر دی جائے، البتہ ہماری رائے کے مطابق تمام افرادکے لئےاس کی کوئی ایک حد مقرر کرنے کی بجائے بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انتہائی حد (Maximum Limit) تو کوئی ایک رقم (مثلاً پچاس ہزار روپے -/50000) مقرر کردی جائے کہ اس سے آگے کسی کے لئے بھی قانوناً اجازت نہ ہوگی، البتہ اس سے کم کم کے لئے بھی مختلف درجات (Slots) بنائےجائیں(جس طرح Income Tax Slots ہوتی ہیں) کہ جس میں بےروزگار والدین سے لے کر برسرِ روزگار، اور پھر تنخواہوں اور انکم کے درجات کے لحاظ سے مالیت ِ جہیز کو تقسیم کیا جائے، کیونکہ شریعت کا مزاج (عشر، زکوٰۃ، خراج اور قربانی وغیرہ میں) بھی یہی ہے کہ افراد کی مالی حیثیت کے مطابق ان پر احکام لاگو ہوتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ مکمل پابندی کے قابلِ نفاذ یا قابلِ عمل نہ ہونے کی صورت میں اس طرح کی انتہائی حد مقرر کی جا سکتی ہے، البتہ زیادہ بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی مالی حیثیت کا لحاظ رکھتے ہوئے مختلف درجات(Slots) قائم کئے جائیں۔ 1(3)۔ کیا اس سے زیادہ جہیزدینے کے خلاف قانون بنایا جائے؟ جیسا کہ اوپر بھی یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ جہیز کی حقیقت (جبکہ اس میں مروجہ مفاسد نہ ہوں تو)ہدیہ اور صلہ رحمی کی ہے،یہ ایک جائز بلکہ مستحسن عمل ہوتا اگر اس میں مروجہ مفاسد نہ ہوتے،مگر جب مروجہ صورت میں مفاسد پائے جاتے ہیں اور حکومت ان مفاسد کے خاتمے کے لئے "سداً للذرائع" کے اصول کے مطابق قانون سازی کی کوشش کر رہی ہے، تو عوام اس کی پابندی تب ہی کریں گے کہ جب اس سے زیادہ کو خلافِ قانون کہا جائے، وگرنہ تو یہ ایک رائے ہو گی جس کی پابندی عوام نہیں کریں گے۔ 2. کیا نکاح نامہ کے ساتھ جہیز کی تفصیل، تحائف، رقم یا کوئی بھی فہرست منسلک کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اور کیا یہ فہرست نکاح نامہ کے ساتھ لازمی منسلک کی جائے؟ بعض امور انتظامی نوعیت کے ہوتے ہیں، یعنی ان کا تعلق شرعی احکام سےنہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجودیہ انتظامی احکام بھی اس لئےاہم ہوتے ہیں کہ بعض اوقات ان کی وجہ سے نہ صرف اصل شرعی احکام کے نفاذ میں آسانی ہوجاتی ہے، بلکہ دھوکے اور فریب کے امکانات بھی ممکنہ حد تک کم ہو جاتے ہیں،ایسی صورت میں شرعی لحاظ سےان انتطامی امور پرعمل درآمد نہ صرف یہ کہ جائز ہوتا ہے، بلکہ مستحسن ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال ہمارے زمانے میں زمینوں کے انتقال اور رجسٹری کی دستاویزات کی ہے،کہ یہ دستاویزات بنانا کوئی شرعی حکم نہیں، لیکن انتظامی لحاظ سے ان کا وجود ناگزیر ہے، ان انتظامی احکام کے بارے میں شریعت کا مزاج یہ ہے کہ ان کی تعیین کے لئے ہر دور کے اربابِ حل و عقد (یعنی اس فیلڈ کے ماہرین)شرعی احکام کی مخالفت کئے بغیر جو انتطامی احکام وضع کر دیں وہ درست ہیں، لہذا مذکورہ صورت میں بھی اگر اس قانون کے نفاذ کی یقین دہانی کے لئے مذکورہ امور (جہیز کی تفصیل، تحائف، رقم یا کوئی بھی فہرست نکاح نامے کے ساتھ منسلک کرنے)کو اہلِ فن(قانونی ماہرین) کے مشورہ سے قانون کا حصہ بنا دیا جائے تو اس میں قباحت نہیں۔ 3. خلع یا طلاق کی صورت میں خاتون کو دئے گئے جہیز اور حق مہر کے کیا احکامات ہیں؟اور کیا ان سب پر خاتون کا حق ہو گا؟ جہاں تک جہیز کی بات ہے تو جمہور فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جہیز عورت کی ملکیت ہوتی ہے، خواہ طلاق ہو یا خلع، یا موت تک رشتہ قائم رہے ، یہ جہیز عورت کی ملکیت شمار ہو کر اس کاترکہ سمجھا جائے گا(دیکھئے حوالہ نمبر 11)۔ الّا یہ کہ عورت نے اس سامان میں سے کوئی چیز کسی دوسرے شخص کو ہبہ (ہدیہ/گفٹ)کر دی ہو اور شرعی اصولوں کے مطابق وہ ہبہ درست بھی ہو گیا ہو۔ مہر کے احکام میں کافی تفصیلات ہیں جن کا ذکر یہاں ممکن نہیں، البتہ مجوزہ قانون کے پس منظرمیں طلاق کی صورت میں نکاح میں مقرر کی گئی مہر کی کل مقدار(مہرِ مسمیٰ) شوہر کے ذمہ شرعاًلازم ہے بشرطیکہ عورت کی رخصتی یا خلوتِ صحیحہ (یعنی میاں بیوی کا تنہائی میں ایسی جگہ جمع ہوناجہاں میاں بیوی جیسا تعلق قائم کرنے سے کوئی مانع نہ ہو)کے بعد طلاق ہوئی ہو، اور رخصتی یا خلوتِ صحیحہ سے پہلے طلاق کی صورت میں نصف مہر واجب ہو گا۔البتہ جہاں تک خلع کا تعلق ہے تو خلع چونکہ مرد کسی مال کے عوض کرتا ہے، تو اس میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگرمعروف طریقےسے نکاح کو قائم رکھنے سے روگردانی عورت کی طرف سے پائی جا رہی ہو تو مرد مہر کی حد تک واپس لے سکتا ہے، اس سے زیادہ لینا خلافِ اولیٰ ہے، اور اگر روگردانی مرد کی طرف سے پائی جا رہی ہوتو عورت سے کچھ بھی عوض لینا حرام ہے(دیکھئے حوالہ نمبر 13)۔ 4. شادی اور اس سے متعلق دیگر رسومات (مایوں، مہندی) کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور اس کے اخراجات پر تجاویز دیں۔ اصولی طور پر شادی کے موقع پر لڑکی کا مہندی لگانا یا بناؤ سنگار کرنا جائزاور مستحسن عمل ہے، اگر یہ گھر کی خواتین یا انتہائی قریبی چند خواتین مل کر انجام دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں،لیکن ہمارے ہاں مہندی کی رسم شادی کے موقع پرجس انداز سے رائج ہوگئی ہےکہ اس کے لئے باقاعدہ کارڈ چھپوائے جاتے ہیں،سینکڑوں لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے،مردوزن کا اختلاط ہوتا ہے، موسیقی اور گانا بجانا ہوتا ہےاور اتنی بلند آواز میں ہوتاہے کہ پڑوسیوں، بیماروں اورمشغول لوگوں کی شدید ایذاء کا باعث بنتا ہے، نیز رواج پاجانے کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقہ بھی یہ رسم ادا کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور مشکلات کا شکار ہوتا ہے، یہ دراصل ہندوانہ رسم ہے، ہندو لوگ اپنی شادیوں میں مہندی کی رسم کا اہتمام کرتے ہیں، اور ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں نے بھی نکاح (جو کہ آپ ﷺ کی سنتِ مبارکہ ہے) کے ساتھ اس کو بھی شامل کردیا ہے، حالانکہ مسلمانوں کو مشرکین کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے(دیکھئے حوالہ نمبر 14)، اور اسی وجہ سے آپﷺ کو جب معلوم ہوا تھا کہ یہود 10 محرم کا روزہ رکھتے ہیں اور مسلمان بھی 10 محرم کا روزہ رکھتے ہیں، تو آپﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ 10 محرم کے روزے کے ساتھ 9 یا 11 محرم کا بھی روزہ رکھیں تاکہ یہود سے مشابہت نہ ہو(دیکھئے حوالہ نمبر 15)۔ لہذا مندرجہ بالا خرابیوں کی بنا پرمروجہ مہندی کی رسم شرعاًناجائز ہے، اور ایک ناجائز کام پر کئے جانے والے اخراجات بھی ناجائز ہوتے ہیں اورتبذیر میں شامل ہیں، حالانکہ اللہ تعالی نے تبذیر کرنے والوں کوشیطان کا بھائی قرار دیا ہے(دیکھئے حوالہ نمبر 16)۔ لہذا ہماری رائے کے مطابق اگر حکومت اس کے لئے اجتماع اور دعوتِ عام پر پابندی لگا دے تو امید ہے کہ اس میں کمی آئےگی، لیکن شرعاً یہ جائز معلوم نہیں ہوتا کہ حکومت اس رسم پر کئے جانے والے اخراجات کی کوئی حد مقررکرے، کیونکہ اخراجات کی حد مقرر کرنا اس بات کی علامت ہو گا کہ فی نفسہ یہ رسم جائز ہے، بخلاف جہیز کی مالیت کی حد مقرر کرنے کے، کیونکہ جہیز اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہدیہ اور صلہ رحمی ہے، لہذا ہماری رائے کے مطابق جہیز کی مالیت کی حد تو مقرر کی جا سکتی ہے، البتہ رسمِ مہندی پر کئے جانے والے اخراجات کی حد مقرر کرنے کی بجائے اس پر مکمل پابندی لگانے کی کوشش کی جائے۔نیز اس قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں مالی جرمانہ لگانے سے بہتر یہ ہے کہ سزا کا کوئی اور طریقہ اختیار کیا جائے، لیکن اگر بغیر مالی جرمانے کے اس قانون پر عمل کروانا ناممکن ہو تو خلاف ورزی کرنے والے کی مالی حیثیت کے مطابق جرمانہ عائد کرنا جائز ہے(دیکھئے حوالہ نمبر 17)۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اہم ملاحظات:  جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے کہ انڈیا میں 1961ء سے جہیز کے خلاف ایک قانون نافذ ہے، ہمارا ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ آپ حکومتی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اعلی تعلیمی درجات (ماسٹرز یا پی۔ایچ۔ڈی) کے قانون اور سوشل سائنسز (Law and Social Sciences) کے طلبہ سے انڈیا کے اس قانون کی مختلف جہات (مثلاًاس کے مندرجات، اس کے نفاذ کے نتائج، اس میں حائل رکاوٹیں، اس میں کی جانے والی ترمیمات، اور اس کے نقائص وغیرہ) پر ایک اچھی تحقیق (Research) کروانے کے بعد قانون سازی کریں تو امید ہے کہ ان شاء اللہ وہ زیادہ فائدہ مند ہو گی۔فقط۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم بالصواب
حوالہ جات
حوالہ جات 1۔فی تاج العروس" جهاز " :جِهازُ الميِّتِ والعَروسِ والمسافرِ بالكسر والفتح : ما يَحْتَاجونَ إليه 2۔ فی لسان العرب مادة "جهز " :"( جهز ) جَهاز العَرُوس والميت وجِهازهما ما يحتاجان إِليه ۔۔۔۔۔۔۔ جَهَّزْتُ العروسَ تَجْهِيزاً وكذلك جَهَّزت الجيش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منه تَجْهِيزُ العروس وتَجْهِيز الميت وجَهَّزت القوم تَجْهِيزاً إِذا تكلَّفت لهم بِجهازِهِمْ للسفر وكذلك جِهَاز العروس والميت وهو ما يحتاج له في وجهه۔" 3۔ فی المصباح المنير مادة " ج هـ ز " :"( ج هـ ز ) :َجَهَازُ الْعَرُوسِ وَالْمَيِّتِ بِاللُّغَتَيْنِ أَيْضًا يُقَالُ جَهَّزَهُمَا أَهْلُهُمَا بِالتَّثْقِيلِ وَجَهَّزْتُ الْمُسَافِرَ بِالتَّثْقِيلِ أَيْضًا هَيَّأْتُ لَهُ جَهَازَهُ۔" 4۔ فیروز اللغات، ص 286۔ 5۔ The Code of Hammurabi Robert Harper Translation 6۔ المصباح المنير مادة " س ن ن " : وَالسُّنَّةُ الطَّرِيقَةُ وَالسُّنَّةُ السِّيرَةُ حَمِيدَةً كَانَتْ أَوْ ذَمِيمَةً ۔ 7۔ رد المحتار على الدر المختار 1 /70 ط إحياء التراث، جواهر الإكليل شرح مختصر خليل 1/11ط دار الفكر۔ 8۔المستدرك على الصحيحين للحاكم - (ج 11 / ص 398، المکتبۃ الشاملۃ):" عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت : لما بعث أهل مكة في فداء أساراهم بعثت زينب ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم في فداء أبي العاص بمال وبعثت فيه بقلادة كانت خديجة أدخلتها بها على أبي العاص حين بنى عليها ، فلما رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم تلك القلادة رق لها رقة شديدة۔" 9۔ جامع الأصول من أحاديث الرسول(ج 1 / حدیث 9123، المکتبۃ الشاملۃ)عطاء بن يسار - رضي الله عنه - : « أَنَّ رسولَ الله -صلى الله عليه وسلم- جَهَّزَ فاطِمَةَ بخميل وقِرْبة ووسادة حَشوها إِذْخِر ». أخرجه النسائي۔" 10۔ المعجم الكبير للطبراني - (ج 16 / ص 262، المکتبۃ الشاملۃ): "عن أنس بن مالك، قال: جاء أبو بكر إلى النبي صلى الله عليه وسلم ۔۔۔ الی ۔۔۔ وما ذاك يا علي؟قلت: تزوجني فاطمة، قال:وما عندك، قلت: فرسي وبدني، يعني درعي، قال:أما فرسك، فلا بد لك منه، وأما درعك فبعها، فبعتها بأربع مائة وثمانين فأتيت بها النبي صلى الله عليه وسلم فوضعتها في حجره، فقبض منها قبضة، فقال:يا بلال، ابغنا بها طيبا، وامرهم أن يجهزوها، فجعل لها سريرا مشرطا بالشريط، ووسادة من أدم، حشوها ليف، وملأ البيت كثيبا، يعني رملا۔" 11۔ و فی الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ (16/166): "ذَهَبَ جُمْهُورُ الْفُقَهَاءِ إِلَى أَنَّهُ لا يَجِبُ عَلَى الْمَرْأَةِ أَنْ تَتَجَهَّزَ بِمَهْرِهَا أَوْ بِشَيْءٍ مِنْهُ ، وَعَلَى الزَّوْجِ أَنْ يُعِدَّ لَهَا الْمَنْزِلَ بِكُلِّ مَا يَحْتَاجُ إِلَيْهِ لِيَكُونَ سَكَنًا شَرْعِيًّا لائِقًا بِهِمَا . وَإِذَا تَجَهَّزَتْ بِنَفْسِهَا أَوْ جَهَّزَهَا ذَوُوهَا فَالْجِهَازُ مِلْكٌ لَهَا خَاصٌّ بِهَا۔" 12۔ كنز العمال - (ج 4 / ص 183):" مر عمر بن الخطاب على حاطب بن أبي بلتعة ، وهو يبيع زبيبا له في السوق فقال له عمر : إما أن تزيد في السعر ، وإما أن ترفع من سوقنا "۔ 13۔ فی الدرالمختار (ج 12 / ص 121، المکتبۃ الشاملۃ): "( وكره ) تحريما ( أخذ شيء ) ويلحق به الإبراء عما لها عليه ( إن نشز وإن نشزت لا ) ولو منه نشوز أيضا ولو بأكثر مما أعطاها على الأوجه فتح ، وصحح الشمني كراهة الزيادة ، وتعبير الملتقى لا بأس به يفيد أنها تنزيهية وبه يحصل التوفيق۔۔ و اقال ابن عابدینؒ ۔۔۔ ( قوله : وبه يحصل التوفيق ) أي بين ما رجحه في الفتح من نفي كراهة أخذ الأكثر وهو رواية الجامع الصغير ،وبين ما رجحه الشمني من إثباتها وهو رواية الأصل ، فيحمل الأول على نفي التحريمية والثاني على إثبات التنزيهية ، وهذا التوفيق مصرح به في الفتح ، فإنه ذكر أن المسألة مختلفة بين الصحابة وذكر النصوص من الجانبين ثم حقق ثم قال : وعلى هذا يظهر كون رواية الجامع أوجه ، نعم يكون أخذ الزيادة خلاف الأولى ، والمنع محمول على الأولى .ا هـ .ومشى عليه في البحر أيضا۔" 14۔ صحيح البخارى (حدیث 5892، المکتبۃ الشاملۃ): "عن ابن عمر عن النبى - صلى الله عليه وسلم - قال « خالفوا المشركين ، وفروا اللحى ، وأحفوا الشوارب»" 15۔ صحيح مسلم (المکتبۃ الشاملۃ):"2722 - ۔۔سمعت عبد الله بن عباس - رضى الله عنهما - يقول حين صام رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يوم عاشوراء وأمر بصيامه قالوا يا رسول الله إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى. فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- « فإذا كان العام المقبل - إن شاء الله - صمنا اليوم التاسع ». قال فلم يأت العام المقبل حتى توفى رسول الله -صلى الله عليه وسلم۔" 16۔ إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا (27) [الإسراء/27] 17۔ تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق 3 / 208 ط دار الكتاب الإسلامي : " وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ أَنَّ التَّعْزِيرَ بِأَخْذِ الأَمْوَالِ جَائِزٌ لِلإِمَامِ " ۔۔۔ و فی حاشیۃ الشلبی ۔۔۔ " قَوْلُهُ وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ أَنَّ التَّعْزِيرَ بِأَخْذِ الأَمْوَالِ جَائِزٌ لِلإِمَامِ ) وَعِنْدَهُمَا وَالشَّافِعِيُّ وَمَالِكٌ وَأَحْمَدُ لا يَجُوزُ بِأَخْذِ الْمَالِ . ا هـ . كَاكِيٌّ وَفَتْحٌ وَمَا فِي الْخُلاصَةِ سَمِعْت مِنْ ثِقَةٍ أَنَّ التَّعْزِيرَ بِأَخْذِ الْمَالِ إنْ رَأَى الْقَاضِي ذَلِكَ أَوْ الْوَالِي جَازَ مِنْ جُمْلَةِ ذَلِكَ رَجُلٌ لا يَحْضُرُ الْجَمَاعَةَ يَجُوزُ تَعْزِيرُهُ بِأَخْذِ الْمَالِ مَبْنِيٌّ عَلَى اخْتِيَارِ مَنْ قَالَ بِذَلِكَ مِنْ الْمَشَايِخِ لِقَوْلِ أَبِي يُوسُفَ . ا هـ . فَتْحٌ "
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمران مجید صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب