021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جہاد کا مفہوم اور اس کا مصداق
60926 تاریخ،جہاد اور مناقب کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: ۱۔جہاد کا مفہوم کیا ہے؟ ۲۔کیا دین کی ہر محنت کو جہاد کہا جاسکتا ہے؟ ۳۔"اللہ کے راستے" میں نکلنے کے فضائل صرف میدان جہاد میں نکلنے کے ساتھ مخصوص ہیں، یا اِس سے عمومی طور پر دین کی محنت کا ہر راستہ مراد لیا جاسکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱۔شریعت میں اللہ جلّ جلالہ کے دین کی مضبوطی، استحکام اور اُس کی سربلندی کے لے کافروں کے خلاف لڑنے کو جہاد کہا جاتا ہے۔ ۲۔جہاد جب مطلق بولا جائے تو اس سے مراد کفار کے خلاف دین کی خاطر کی جانے والی لڑائی ہوتی ہے،البتہ کسی قرینے کی بنیاد پر اس سے دین کی دوسری وہ محنتیں بھی مراد ہوسکتی ہیں جواللہ کے دین کی مضبوطی، استحکام اور کفار کی شان و شوکت کو ختم کرنے کےلےانجام دی جائیں۔ ۳۔"اللہ کے راستے "میں نکلنے کے فضائل کا اولین مصداق جہاد ہے، اس کے بعد عمومی طور پر دین کی محنت کا ہر وہ راستہ بھی اس کا مصداق ہو سکتا ہے ،جس کی بنیاد اللہ کےدین کااستحکام اور کفار کی طاقت کو کچلنا ہو۔
حوالہ جات
قال العلامۃ القسطلانی رحمہ اللہ تعالی:الجہاد:بکسر الجیم مصدر جاھدت العدو مجاھدۃ و جہادا، وھو مشتق من الجھد، وھو التعب والمشقۃ، وھو فی الاصطلاح: قتال الکفار لنصرۃ الإسلام وإعلاء کلمۃ اللہ. )إرشاد الساری:6/275 ،دار الکتب العلمیۃ( وفی تکملۃ فتح الملہم:إن الجہاد لا یختص بمباشرۃ القتل، وإنما ھو کل جھد یبذل فی سبیل إعلاءکلمۃ اللہ،وکسر شوکۃ الکفر والکفار،سواء کان بالسلاح ،أو بالمال،أو بالعمل، أو بالقلم، أو باللسان،ولکن کلمۃ"الجھاد" إذا أطلقت فإنما یراد بھا فی الغالب جھد یبذل فی قتال الکفار،ولا تطلق علی غیرہ ، إلا بقرینۃ تدلّ علی ذلک. 3)/5،دار القلم) وقال العلّامۃ الجزری رحمہ اللہ تعالی:"وسبیل اللہ عامّ یقع علی کل عمل خالص سُلک بہ طریق التقرُّب إلی اللہ تعالی بأداء الفرائض ،والنوافل، وأنواع التطوعات، وإذا أُطلق فہو فی الغالب واقع علی الجہاد، حتّی صار لکثرۃ الاستعمال کأنہ مقصور علیہ." (النہایۃ:2/846 ،المکتبۃ العلمیۃ) وقال الإمام النووی رحمہ اللہ تعالی: "واحتجّ أصحابنا بأن المفہوم فی الاستعمال المتبادر إلی الأفہام أنّ "سبیل اللہ تعالی" ھو الغزو، وأکثر ما جاء فی القرآن العزیز کذلک." (المجموع شرح المہذب:6/212،دار الفکر) وقال الإمام ابن بطال رحمہ اللہ تعالی: " وقولہ :"فی سبیل اللہ" المراد بہ الجہاد، ویدخل فیہ بالمعنی کل من جُرح فی سبیل بر أو وجہ مما أباحہ اللہ تعالی کقتال أھل البغی ،والخوارج،واللصوص،أو أمر بمعروف أو نہی عن منکر، ألا تری قولہ علیہ السلام:"من قتل دون مالہ فہو شہید" (شرح صحیح البخاری:5/26، مکتبۃ الرشد،الریاض) عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:"والذی نفسی بیدہ لا یکلم أحد فی سبیل اللہ ،واللہ أعلم بمن یکلم فی سبیلہ،إلا جاء یوم القیامۃ، واللون لون الدم، والریح ریح المسک" قولہ "فی سبیل اللہ"یرید بہ الجہاد، ویدخل فیہ کل من جرح فی ذات اللہ،وکل ما دافع فیہ المرء بحق ، فأصيب ،فھو مجاھد. )عمدۃ القاری:10/107،دار الفکر(
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / فیصل احمد صاحب