ہم تین بھائی ہیں زاہد ۔خان ۔شاہد زاہد اور خان دونوں کے ایک ساتھ بیٹے پیداہوئے ۔زاہد کے گھر والی نے خان کے بیٹے کو دودھ پلایا ، اب خان کے بیٹے کا زاہد کی بیٹیوں کے ساتھ تو نکاح جائز نہیں کیونکہ وہ اس کی رضاعی بہنیں ہیں لیکن ان دونوں کے پیدائش کے تقریبا پانچ سال بعد تیسرے بھائی شاہد کی بیٹی پیدا ہوئی ،زاہد کی گھر والی بچی کو بہلانے کے لئے اپنی چاتی سے لگایا کرتی تھی ﴿ یہ عمل تقریبا ایک دوماہ مسلسل چلتا رہا ﴾ لیکن اس دوران اس عورت کا دودھ نہیں تھا کیونکہ اپنے بچہ کے دودھ چھڑانے اور اس بچی کو چھاتی سے لگانے میں تقریبا دوڈھائی سال کا وقفہ ہوچکاتھا ، اب اس عورت کو یقینی طور پر معلوم نہیں اس عمل سے بچی کے منہ میں دودھ گیا ہے یا نہیں ۔
سوال یہ ہےکہ اس بچی اور خاتون کا رضاعی بیٹا ﴿ جوکہ خان کا بیٹاہے ﴾ آپس میں نکاح ہوسکتا ہے یانہیں ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں بقول سائل یہ عمل ایک دوماہ تک ہوتا رہا اگر اس سے دودھ بچہ کے حلق میں اترنےکا یقین ہوتو اس سے حرمت مصاہرت ثابت ہوگی ۔ یہ بچی اور اس خاتون کے رضاعی بیٹے کے آپس میں نکاح جائز نہیں ہوگا ۔ اگر حلق میں دودھ اترنے کا یقین نہ ہو تو قضاء حرمت رضاعت ثابت نہ ہوگی البتہ احتیاطا نکاح نہ کرناچاہئے ۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية (8/ 4)
المرأة إذا جعلت ثديها في فم الصبي ولا تعرف أمص اللبن أم لا ففي القضاء لا تثبت الحرمة بالشك وفي الاحتياط تثبت دخل فی فم الصبي من الثدي مائع لونه أصفر تثبت حرمة الرضاع لأنه لبن تغير لونه كذا في خزانة المفتين