021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کی ایک مشروط تحریر میں اس جھوٹی مکار ، وعدہ خلاف ،بد تمیز اور بد کردار عورت کو اپنی زوجیت سے ہمیشہ کے لئے الگ کرتاہوں, میں اس عوررت کو t.t.t.دیتا ہوں. کاحکم
61070-1طلاق کے احکامطلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان

سوال

جناب مفتی صاحب میں اہنی بیوی سے ناراض ہوکر اسے میکے بھیج دیاتھا اور پھر بعد میں ایک تحریر لکھی تھی رف کے طور پر اگر تو صلح ہوگئی ہے تو ٹھیک ہے ، اگر صلح نہ ہوئی تو اسے نیٹ کرکے اپنی بیوی کو بھیجوا دونگا ،اب اس تحریر کے متعلق تحریری فتوی لینا چاہتا ہوں ، کہ اس تحریر سے کوئی طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں ؟ تحریر مندرجہ ذیل ہے ؛ ﴿ میں اس جھوٹی مکار ، وعدہ خلاف ،بد تمیز اور بد کردار عورت کو اپنی زوجیت سے ہمیشہ کے لئے الگ کرتاہوں تاکہ یہ اس کے ساتھ الگ زندگی گذار سکے نہ خود گناہگار ہو نہ میری شرافت کو تار تار کرکے جوتھوڑی بہت رہ گئی ہے مجھے ذلیل کرے ۔ دونوں بچوں کی کفالت میں خود کرونگا ۔ تاکہ ان کے اخلاق اور مذہبی تعلیم کے ساتھ معاشرتی تعلیم وتربیت اچھے سے اچھاکرسکوں ۔ میں اس عوررت کو t.t.t.دیتا ہوں ﴾ مفتی صاحب مندرجہ بالاتحریر الفاظ میں ہے ۔ اب اگر صلح ہورہی ہو تو اس میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے صلح ہوسکتی ہے یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

وقوع طلاق کے لئے ضروری ہے کہ بیوی کے حق میں طلاق کا صریح لفظ ،یا کنائی لفظ کو طلاق کی نیت سے استعمال کیا جائے ،صورت مسئولہ میں دونوں باتیں نہیں پائی گئی ہیں ، کیونکہ شوہر کے الفاظ ,,بد کردار عورت کو ہمیشہ کے لئے اپنی زوجیت الگ کرتا ہوں ،،اگر چہ طلاق کے کنائی الفاظ ہیں ، مگر چونکہ ان الفاظ کو لکھتے وقت ان میں میں ایقاع طلاق کی نیت نہیں تھی اس لئے ان سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ، اور شوہر کے دوسرےالفاظ ؛ میں اس عورت کو t.t.t دیتا ہوں شرعا طلاق کے الفاظ نہیں ،اس لئے ان الفاظ سے بھی مذکورہ خاتون پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ،لہذا دوبارہ آپس میں صلح ہوجائے تو دونوں کا میاں بیوی کی حیثیت سے زندگی گذارنا جائز ہے ۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 230) (قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي. وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، وكذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لا يقع به طلاق وإن نواه الفتاوى الهندية (8/ 139) ولو حذف القاف من طالق فقال أنت طال فإن كسر اللام وقع بلا نية وإلا فإن كان في مذاكرة الطلاق أو الغضب فكذلك وإلا توقف على النية وإن حذف اللام فقط فقال أنت طاق لا يقع وإن نوى وإن حذف اللام والقاف بأن قال أنت طا وسكت أو أخذ إنسان فمه لا يقع وإن نوى كذا في البحر الرائق
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب