کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
ایک عورت ہے جس کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رقم ملتی ہے جو پورے ملک میں خواتین کے لیے کچھ عرصہ سے شروع ہے، اب دریافت طلب امریہ ہے کہ اگر یہ خاتون فوت ہوجائے تو اس کے رقم کا کیاجائے ؟ کیونکہ رقم شناختی کارڈ پرمل جاتی ہے ،اب اگر اس رقم کو ڈاک خانہ میں چھوڑدی جائے تو شاید ڈاک عملہ اس کو واپس بھجنے کے بجائے اپنے استعمال میں لائے، کیا اس رقم کو فوت شدہ عورت کی اولاد اپنے استعمال میں لاسکتی ہیں یانہیں جبکہ اولاد مستحق بھی ہوں؟ کیا اپنے استعمال میں لانے کے بجائے اس رقم کو کسی کارخیر میں لگاناجائزہوگا جبکہ اولاد میں نابالغ بھی ہوں؟
اگر زندگی میں کوئی خاتون اپنا رقم کسی نواسے یابیٹے کو دیدے یعنی شناختی کارڈ اس کے حوالہ کردے کہ آپ لائیں اورجتنی ضرورت ہواستعمال کریں ، باقی مجھے دیدیں اب فوت ہونے کے بعد کیاکیاجائے؟
o
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
پہلے بطوراصول یہ سمجھ لیں کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ملنے والا وظیفہ سر کا ر کی طر ف سے ایک عطیہ ہو تا ہے، اس لیے جب تک اس وظیفہ کو اصل مستحق قبضہ نہ کرلے اس وقت تک یہ مال اس کی ملکیت شمارنہیں ہوتا،اس بناء پر جو وظیفہ مستحق شخص نے اپنی موت سے پہلے قبضہ نہ کیا ہو وہ تقسیمِ میراث سے مستثنیٰ ہو گا، اور اولاد اور دیگر ورثہ کےلیے یہ جائزنہیں ہوگا کہ اس رقم کو وصول کرکے بطور میراث آپس میں تقسیم کرلیں، البتہ اگرسر کا ر ورثہ میں سے کسی کو دینا چا ہے تو جتنا چا ہے دے سکتی ہے۔
صورتِ مسئو لہ میں جب مذکورہ خاتون فوت ہوجائے تو ان کے شناختی کارڈ پر کسی اورکے لیے کسی بھی غرض مثلاً خود استفادہ کرنے،فقراء میں تقسیم کر نے کےلیے مذکورہ وظیفہ وصول کرنا جائزنہیں، بلکہ ورثاء پر شرعاً لازم ہے کہ وہ متعلقہ ادارے کو فوتگی کی اطلاع دیکر وظیفہ بند کروائیں، ہاں اگر اطلاع دینے کے بعد سرکار ورثہ میں سے کسی اور کو دینے پر راضی ہوجائے تو پھر اس کے لیے لینا جائز ہوگا ۔
لما قال الشیخ اشرف علی التھانویؒ: "چو نکہ میرا ث مملو کہ اموال میں جا ری ہو تی ہے اور یہ وظیفہ محض تبر ع واحسا ن سر کار کا ہے بدو ن قبضہ کے مملو ک نہیں ہو تا لہٰذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میرا ث جا ری نہیں ہو گی، سر کا ر کو اختیا ر ہے کہ جس طر ح چا ہے تقسیم کر دے"
ہاں زندگی میں اگر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کاحامل خاتون کسی کو اپناوکیل بنادے اورپھر قبضہ کے بعدوہ خاتون وکیل کو مکمل رقم ہبہ کردے یا کچھ رقم ہبہ کردےاورباقی لے لے تو اس صورت میں وکیل کے لیے اس رقم کا استعمال جائزہوگا،مگرزندگی کے بعد یہ وکیل نہیں رہے گا اوررقم لینا اور استعمال کرنااس کے لیے بھی جائزنہیں ہوگا۔
حوالہ جات
وفی مستدرك الحاكم(2820)
حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب ، ثنا محمد بن عبد الله بن عبد الحكم ، أنبأ ابن وهب ، حدثني مسلم بن خالد الزنجي ، عن موسى بن عقبة ، عن أمه ، عن أم كلثوم بنت أبي سلمة ، قالت لما تزوج رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أم سلمة قال لها إني أهديت إلى النجاشي أواقي من مسك ، وحلة ، وإني لا أراه إلا قد مات ، ولا أرى الهدية التي أهديت إليه إلا سترد ، فإذا ردت إلي فهو لك أم لكم ، فكان كما قال هلك النجاشي ، فلما ردت إليه الهدية ، أعطى كل امرأة من نسائه أوقية من ذلك المسك ،
وفی الموسوعة الفقهيّة الکویتية(38/280)
اخْتَلَفَ الْفُقَهَاءُ فِيمَا إِذَا مَاتَ الْمَوْهُوبُ لَهُ قَبْلَ الْقَبُولِ ، هَلْ تَبْطُلُ الْهِبَةُ بِمَوْتِهِ ، أَمْ أَنَّ حَقَّ الْقَبُولِ يَنْتَقِلُ إِلَى وَرَثَتِهِ ؟ وَذَلِكَ عَلَى قَوْلَيْنِ : أَحَدُهُمَا : لِلْحَنَفِيَّةِ وَالشَّافِعِيَّةِ وَالْحَنَابِلَةِ ، وَهُوَ أَنَّ الْمَوْهُوبَ لَهُ إِذَا مَاتَ قَبْلَ الْقَبُولِ بَطَلَتِ الْهِبَةُ ، وَلَمْ يَكُنْ لِوَرَثَتِهِ حَقُّ الْقَبُولِ مِنْ بَعْدِهِ ، أَشْبَهَ مَا لَوْ أَوْجَبَ الْبَيْعَ فَمَاتَ الْمُشْتَرِي قَبْلَ الْقَبُولِ . وَإِذَا مَاتَ بَعْدَ الْقَبُولِ وَقَبْلَ الْقَبْضِ ، فَإِنَّ الْهِبَةَ تَبْطُلُ أَيْضًا عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ وَالْحَنَابِلَةِ وَبَعْضِ الشَّافِعِيَّةِ ، لأَنَّهَا لا تَلْزَمُ وَلا يَنْتَقِلُ الْمِلْكُ فِيهَا إِلا بِالْقَبْضِ ، وَقَدِ انْعَدَمَ ذَلِكَ بِمَوْتِ الْمَوْهُوبِ لَهُ قَبْلَهُ ، وَلأَنَّ الْهِبَةَ صِلَةٌ ، وَالصِّلاتُ تَبْطُلُ بِالْمَوْتِ قَبْلَ الْقَبْضِ ، وَلأَنَّهَا عَقْدٌ جَائِزٌ قَبْلَهُ ، فَبَطَلَ بِمَوْتِ أَحَدِ الْعَاقِدَيْنِ ، كَالْوَكَالَةِ وَالشَّرِكَةِ .
وأعطى سائره أم سلمة وأعطاها الحلة هذا حديث صحيح الإسناد ، ولم يخرجاه
وفی صحيح مسلم للنيسابوري (ج 1 / ص 69):
عن أبى هريرة. أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم.......قال من غش فليس منى ».
وفی شرح المجلۃ لسیم رستم بازرقم المادۃ(473)
یملک الموھوب لہ الموھوب بالقبض.