ایک عورت کی شادی ہوئی اوراس کا پہلے خاوندسے ایک بچہ بھی ہے اورخاوندتقریبا15سال سے لاپتہ ہے توعورت نے بغیرقانونی کاروائی کے آگے دوسرے آدمی سے شادی کرلی اوراس سے دوبچے پیداہوئے ،اس کے کافی عرصہ بعد پہلاخاوندلوٹ آیا تواب یہ عورت پہلے خاوندکے پاس رہے گی یادوسرے کے پاس ،نیزبچے کس کوملےگے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ صورت میں دوسرے نکاح کوکالعدم قراردیاجائے گااوریہ عورت پہلے شوہر کوملے گی ،پہلے شوہر کے پاس واپس جانے کے لئے نکاح کی ضرورت نہیں ،کیونکہ مفقود(لاپتہ شخص) کی واپسی کی صورت میں دوسرانکاح باطل ہوجاتاہے ۔البتہ پہلےشوہرکے لئے اس سے صحبت کرناجائز نہیں جب تک یہ عورت شوہر ثانی کی عدت نہ گزالے۔اگریہ عورت حاملہ ہے تواس کی عدت وضع حمل ہے ،اوراگرحمل سے نہیں ہے تواس کی عدت تین ماہواری گذارناہے ۔جب تک یہ عدت ختم نہ ہوجائے پہلے شوہرکوصحبت کرناجائزنہیں ،دونوں پرپوری احتیاط لازمی ہے ۔نیزدوسرے شوہرپرمہرکی ادائیگی بہرحال لازم ہے۔ نیزواضح رہے کہ بچے دوسرے مرد کے ہوں گے۔
حوالہ جات
المبسوط لشمس الدين السرخسي (ج 4 / ص 71):
"ترد إلى زوجهاالاول ويفرق بينها وبين الآخر ولها المهر بما استحل من فرجها، ولايقربها الاول حتى تنفضي عدتها من الآخر."
الآثار ـ لأبى يوسف - (ج 1 / ص 82):
" ترد الى زوجها الاول ولا يقربها حتى تنقضى عدتها من الآخر ويفرق بينها وبين الآخر ولها المهر منه بما استحل من فرجها."
المبسوط لشمس الدين السرسخي (ج 27 / ص 108):
"ولو دخل بامرأة على وجه شبهة أو نكاح فاسد فعليه المهر وعليها العدة ثلاث حيض."
الجوهرة النيرة (ج 4 / ص 278):
" إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق ، وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء "
رد المحتار - (ج 17 / ص 6)
ونقل أن زوجته له والأولاد للثاني