021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
انڈوں میں خون کے ذرات کا حکم
61386جائز و ناجائزامور کا بیانکھانے پینے کے مسائل

سوال

کہ ہمارا تعلق ایک پروسیسنگ یونٹ سے ہے ،جس میں ہم انڈے سے پاوڈر بناتے ہیں جس کے لیے ایک دن میں تقرینا پانچ لاکھ انڈے استعمال  ہوتے ہیں۔

پاؤڈر بنانے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ سب سے پہلے انڈے کو مشین سے چیک کرکےچھانٹی کرلیا  جاتا ہے،پھر یہ انڈہ کنویر پر رکھا جاتا ہے جہاں وہ واش ہوتا ہے اور ٹوٹ کر اس کا لیکویڈ اور چھلکا الگ الگ ہو جاتا ہے ،احتیاطا کنویر پر لڑکے بھی کھڑے ہوتے ہیں جو تھوڑا بہت کچرا اگر آبھی جائے تو اسے  بھی نکال دیتے ہیں ۔اس کے بعد انڈے کا لیکویڈ بہت باریک چھلنیوں سے گزر کر ٹینکوں میں جاتا ہے ۔اس کے بعد جراثیم کو ختم کرنے کے لیے 70ڈگری درجہ حرارت پر پکایا جاتا ہے ،پھر لیکویڈ کا پاؤڈر بنانے کے لیے لیکویڈ کو 180درجہ حرارت پر پکایا جاتا ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ اس سب کے باوجود اگر پانچ لاکھ انڈوں میں سے ایک سے پانچ فیصد انڈے کی زردی یا سفیدی میں معمولی سا خون آجاتا ہے ،حالانکہ حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ خون کو نکالا جاسکے اور خون بالکل بھی لیکویڈ میں نہ جائے ،لیکن اس کے باوجود اگر خون کے ذرات لیکویڈ میں چلے جائیں تو شرعی لحاظ سے پاؤڈر کی حلت و حرمت کا کیا حکم ہے؟

تنقیح:سائل نے بتایا ہے کے خون کے ذرات انتہائی قلیل مقدار میں اور کبھی کبھار ہوتے ہیں ،جس کی وجہ سے ان کا رنگ اور بو وغیرہ کے اثرات مجموعے پر بالکل بھی ظاہر نہیں ہوتے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 اگر پورا انڈہ خراب ہوکر خون وغیرہ بن جائے تو حرام اور نجس ہوگا ، لیکن اگر انڈے  میں صرف  خون کا نقطہ  پایا جائے تو اس سے متعلق کتب حنفیہ میں ہمیں صریح جزئیہ نہیں ملا ،البتہ اصول کا تقاضہ یہ ہے کہ یہ خون کا نقطہ جب تک بہنے کے قابل نہ  ہو، پاک ہے،چناچہ فقہ مالکی میں تو اس کی صراحت ہےکہ انڈے میں پایا جانے والا خون کا یہ نقطہ دم مسفوح نہیں ہے اور نہ ہی اس کی وجہ سے انڈہ نجس  ہوگا۔کتب مالکیہ میں موجود چند جزئیات درج ذیل ہیں:

  1. ۔يوجد في وسط صفار البيض أحيانا نقطة دم ،يتولد منه ،فمقتضى مراعاة السفح في نجاسة الدم، لا تكون نجسة .وقد وقع فيها البحث مع جماعة ولم يظهر غيره.( الذخيرة للقرافي:4 / 107،وکذا فی مواهب الجليل في شرح مختصر خليل :3/ 234)
  2. ۔ إلا المذر (ش) هذا إخراج من عموم الحكم في البيض على طريق الاستثناء المتصل، يعني أن البيض المذر۔ وهو ما فسد بعد انفصاله من الحي بعفن ،أو صار دما، أو صار مضغة، أو فرخا ميتا۔  نجس .ويطلق على ما اختلط صفاره ببياضه ،لكن هذا الأخير طاهر ما لم يحصل فيه
    عفن، وأما ما يوجد من نقطة دم في وسط بياض البيض فمقتضى مراعاة السفح في نجاسة الدم   ،الطهارة في هذه ،كما في الذخيرة.

(قوله إلا المذر) بذال معجمة مكسورة ،ومثل المذر إذا صار اللبن دما من الحي ،فهو نجس ،لا ماء أصفر أو أبيض فالظاهر أنه طاهر. فلو كان اللبن بعضه دم ،وبعضه لبن فهو نجس أيضا .

(قوله: وأما ما يوجد إلخ) أي فتلك النقطة طاهرة  على ما هو مقتضى عدم السفح، كذا ظهر لي مع بحث الفضلاء، ولم يظهر غيره .كذا نقل الحطاب عن القرافي. (شرح مختصر خليل للخرشي :1/ 85)

  1. ۔(إلا المذر) بذال معجمة مكسورة، وهو ما عفن، أو صار دمًا، أو مضغة ،أو فرخًا ميتًا .وأما ما اختلط بياضه بصفاره، فالظاهر طهارته كما أن الظاهر طهارة ما وجد في بياضه ۔أي أو صفارة ۔نقطة دم .قاله القرافي .انظر ح. ولا يعارضه قول " الكافي" إذا وجد في البيضة فرخ ميت أو دم ،حرم أكلها اهـ.

إما ؛لأنه مقابل أو لأن قوله أو دم أي مختلط بجميع أجزاء البيضة ،لا نقطة فقط.( شرح الزرقاني على مختصر خليل وحاشية البناني :1/ 459)

  1. ۔قال ابن عرفة وأطلقه الشيخ وعبارة الكافي: إذا وجد في البيضة فرخ ميت أو دم ،حرم أكلها. انتهى. انظر قد يتفق أن يوجد في البيضة نقطة دم ۔قيل: ويكون ذلك من أكلها الجراد .الذخيرة۔فمقتضى مراعاة السفح في الدم، لا تكون هذه البيضة نجسة. وقد وقع في هذا بحث وما ظهر غيره.  )التاج والإكليل لمختصر خليل :1/ 131(
  2. ۔عرق كل حي ولو كان يشرب خمرا ،أو يأكل نجاسة ،وكذا دمعه ،ومخاطه، ولعابه ( وهو ما سال من فمه في يقظة أو نوم، ما لم يعلم أنه من المعدة بصفرة أو نتن ريح، فإنه نجس ) وبيضه ولو من حشرات ،ما لم يفسد بعفونة، أو زرقة ،أو صار دما، أو مضغة، أو فرخاميتا، فإنه نجس . أما  الذي اختلط صفاره ببياضه بغير عفونة أو وجود نقطة دم غير مسفوح فيه، فلا يفسد، ويبقى طاهرا . (فقه العبادات على مذهب المالكي ص: 36(

ان تما  م حوالوں سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:

1۔انڈے میں خون کا قطرہ پایا جائے تو وہ انڈہ حرام اور ناپاک شمار نہیں ہوگا۔

۲۔خون کا قطرہ پائے جانے کے باوجود   انڈے کے نجس نہ ہونے کی وجہ  یہ ہے کہ یہ قطرہ خون تو ہے لیکن مسفوح نہیں ۔

3۔جہاں خون کی وجہ سے انڈے کے خراب ونجس ہونےکا حکم لگایا گیا ہے وہاں مراد  پورے انڈے کا خون میں بدل جانا یا خون کا انڈے کے تمام   اجزاء کے ساتھ مل جانا ہے۔

4۔ان تمام حوالوں   میں اصل اور  ماخذ"  علامہ قرافی "کی کتاب "الذخیرہ "ہےاور بقول علامہ قرافی کے یہ  نتیجہ  اور حکم  اہل ِعلم سے مباحثے ومناقشے  کے بعد سامنے آیا ہے۔

مذکورہ مسئلے میں احناف کے ہاں جزئیہ نہ پائے  جانے ،نیز عمومِ بلوی اور  ضرورت  وحرج کی بنا پر  مالکیہ کے قول کے مطابق فتوی دیے جانے  کی گنجائش معلوم ہوتی ہے،بلکہ اگر غیرمسفوح ہونے کی علت  کو دیکھا جائے تو  پھر عدمِ نجاست کا حکم  احناف کے اصولوں کے بھی مطابق ہوگا ،کیونکہ دم غیر مسفوح احناف کے نزدیک بھی   نجس نہیں ۔اس لیےاگرچہ تنہا اس خون کا داخلی استعمال مستقذر ہونے کی وجہ سے جائز نہ ہو ،تب بھی صورت مذکورہ میں ایک بڑے مجموعے میں چند نقطوں کےبقدر ہونے کی وجہ سے"القلیل مغتفر"اور اس سےاحتراز میں مشقت وحرج کی وجہ سے"المشقۃ تجلب التیسیر "کا قاعدہ بھی اس پر جاری ہوسکتا ہے،جیسا کہ   جانور ذبح کرنے کے بعد اس کے گوشت میں پایا جانے والا خون غیر مسفوح ہونے اور احتراز میں مشقت پائے جانے کی وجہ سے   نجس نہیں ،چناچہ حاشیۃ الطحطاوی  اور رد المحتار میں ہے  :

قوله: "والدم المسفوح" أي السائل من أي حيوان إلى محل يلحقه حكم التطهير. قهستاني .والمراد  أن يكون من شأنه السيلان ،فلو جمد المسفوح۔ ولو على اللحم ۔فهو نجس ،كما في منية المصلى .وكذا ما بقي في المذبح ؛لأنه دم مسفوح ،كما في ابن أمير حاج. قوله: "لا الباقي في اللحم الخ" ؛لأنه ليس بمسفوح ؛ولمشقة الإحتراز عنه. (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ،ص: 153)

(كره تحريما) وقيل تنزيها والأول أوجه (من الشاة سبع الحياء والخصية والغدة والمثانة والمرارة والدم المسفوح والذكر)

(قوله والدم المسفوح) أما الباقي في العروق بعد الذبح ؛فإنه لا يكره. (الدر المختار مع رد المحتار:6/ 749)

گویا  مذکورہ    حکم  خود احناف   کے اصولوں پر بھی پورا  اترتا ہے  اور عمومِ بلوی کی وجہ سے  مذہب  مالکیہ پر  عمل کرنے کی گنجائش بھی ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل کے بعد سوال میں بیان کردہ صورت میں اگر اپنی جانب سے مکمل احتیاط اور نگرانی کا اہتمام کیا جائے،لیکن اس کے باوجود ایسا ہوجائےتوپاؤڈر حلال ہوگا،لیکن اچھی ٹیکنالوجی اور بہترانتظامات کو  بروئے کار لاکر ان ذرات کو بھی نکالنےکی کوشش کی جائے۔

حوالہ جات
قوله: "والدم المسفوح" أي السائل من أي حيوان إلى محل يلحقه حكم التطهير. قهستاني .والمراد  أن يكون من شأنه السيلان ،فلو جمد المسفوح۔ ولو على اللحم ۔فهو نجس ،كما في منية المصلى .وكذا ما بقي في المذبح ؛لأنه دم مسفوح ،كما في ابن أمير حاج. قوله: "لا الباقي في اللحم الخ" ؛لأنه ليس بمسفوح ؛ولمشقة الإحتراز عنه. (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ،ص: 153)
(كره تحريما) وقيل تنزيها والأول أوجه (من الشاة سبع الحياء والخصية والغدة والمثانة والمرارة والدم المسفوح والذكر)
(قوله والدم المسفوح) أما الباقي في العروق بعد الذبح ؛فإنه لا يكره. (الدر المختار مع رد المحتار:6/ 749)

                شیرعلی

          دار الافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی

   30/ربیع الثانی 1439ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب