021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیر عربی میں خطبہ دینے کا حکم
61396نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

سوال: میری رہائش سے بہت قریب ایک دینی مدرسہ ومسجد قائم ہوا ہے، اس کے بانی ایک بنگلہ دیش کے مفتی جن کی تعلیم ساؤتھ افریقہ میں ہوئی، منتظم ہیں، پانچ وقت جماعت ہوتی ہے۔ شروع سے چندہ مانگ کر مسجدوں میں بعد بیان ابھی تک سلسلہ جاری ہے۔ جمعہ کا خطبہ بعض مسجدوں میں انگریزی میں دیتے ہیں، چندہ ملنے کی امید میں۔ نصف لاکھ ڈالر 50,000 میں آدھی رقم ایک بے پردہ عورت جو ڈاکٹر ہے اس سے ملے۔ یہاں نماز جمعہ دو وقت ادا کی جاتی ہے۔ کیا اس مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے کی اجازت ہے؟ جزاک اللہ !!!!محل وقوع: امریکا تنقیح:آپ کے اس سوال کا درست جواب دینے کے لیے مزید تفصیلات درکار ہیں، لہذا اپنے سوال کو متعین کر کے تمام تر تفصیلات کے ساتھ لکھ کر دوبارہ بھیجئے۔ جواب تنقیح:کیا ایسی مسجدمیں نمازِجمعہ پڑھنا جائز ہے جہاں: 1- دو دفعہ نمازِجمعہ ادا کی جاتی ہو؟ 2- جمعہ کے دونوں خطبے انگریزی میں دیے جاتے ہوں؟ کیا عربی خطبے کے بجائے فقط انگریزی میں خطبہ دینا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1- مغربی ممالک کے جن علاقوں میں مساجد محدود ہوں اور جگہ کی تنگی کی وجہ سے تمام نمازی ایک جماعت میں شریک نہ ہوسکیں، وہاں ضرورت کی بناء پر دوسری جماعت کی گنجائش ہے، ورنہ نہیں۔ 2- عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں خطبہ دینا مکروہ تحریمی ہے۔ چنانچہ جس مسجد میں عربی زبان پر قدرت کے باوجود بھی انگریزی زبان میں خطبہ دیا جا رہا ہے، اس مسجد میں جمعہ ادا نہ کیا جائے، لیکن اگر کسی نے وہاں جمعہ پڑھ لیا تو نماز ہوجائے گی۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین:" (قوله: وتكرار الجماعة) لما روى عبد الرحمن بن أبي بكر عن أبيه أن رسول اللہ ﷺخرج من بيته ليصلح بين الأنصار فرجع وقد صلى في المسجد بجماعة، فدخل رسول اللہ ﷺ في منزل بعض أهله فجمع أهله فصلى بهم جماعة ولو لم يكره تكرار الجماعة في المسجد لصلى فيه. وروي عن أنس " أن أصحاب رسول اللہ ﷺ كانوا إذا فاتتهم الجماعة في المسجد صلوا في المسجد فرادى". ولأن التكرار يؤدي إلى تقليل الجماعة؛ لأن الناس إذا علموا أنهم تفوتهم الجماعة يتعجلون فتكثر وإلا تأخروا. وحينئذ فلو دخل جماعة المسجد بعد ما صلى أهله فيه فإنهم يصلون وحدانا، وهو ظاهر الرواية ظهيرية. وفي آخر شرح المنية: وعن أبي حنيفة لو كانت الجماعة أكثر من ثلاثة يكره التكرار وإلا فلا. وعن أبي يوسف إذا لم تكن على الهيئة الأولى لا تكره وإلا تكره وهو الصحيح، وبالعدول عن المحراب تختلف الهيئة كذا في البزازية. وفي التتارخانية عن الولوالجية: وبه نأخذ." (رد المحتار:1/395، ایج ایم سعید) قال العلامۃ الحصکفی: "وصح شروعه أيضا مع كراهة التحريم بتسبيح وتهليل وتحميد ... كما صح لو شرع بغير عربية أي لسان كان،وخصه البردعي بالفارسية لمزيتها بحديث لسان أهل الجنة العربية والفارسية الدرية، بتشديد الراء قهستاني وشرطا عجزه، وعلى هذا الخلاف الخطبة وجميع أذكار الصلاة." قال العلامۃ ابن عابدین فی شرحہ:"( قوله وشرطا عجزه) أي عن التكبير بالعربية والمعتمد قوله ط بل سيأتي ما يفيد الاتفاق على أن العجز غير شرط على ما فيه."( رد المحتار: 1/484، ایج ایم سعید) قال العلامۃ عبد الحی اللکھنوی: " وتحقیقہ أن فی الخطبۃ جھتان: الأولی: کونھا شرطا لصلاۃ الجمعۃ. والثانیۃ:کونھا فی نفسھا عبادۃ، لکل منھا وصف علی حدۃ، فمعنی قولھم یجوز الخطبۃ بالفارسیۃ أ نھا تکفی لتأدیۃ الشرط وصحۃ صلاۃ الجمعۃ، وھو لا یستلزم أن یخلومن البدعیۃ والکراھیۃ من حیث الجھۃ الثانیۃ."(آکام النفائس:91،94)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب