021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق میں میاں بیوی کا اختلاف
61395 طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

جامعۃ الرشید کے دار الافتاء سے ایک فتوی جاری ہوا ہے جس میں یہ بتایاگیاہے کہ تین طلاقوں کے بعد مرد اورعورت اجنبی ہوجاتے ہیں اورپھراکھٹے گھر میں نہیں رہ سکتے ،اس فتوی میں مکمل قرآنی دلائل اورشواہد کا حوالہ بھی دیا گیاتھا،لیکن بدقسمتی سے آپ کا یہ فتوی غلط مقصد کی کامیابی کے لیے استعمال کیاجارہاہے، حقیقتِ حال یہ ہے کہ میں پچھے 40سال سے ملازمت کرتاہوں اورمیں نے اپنی بیوی کو کبھی طلاق نہیں دی اوراس پر میں حلف کھانے کےلیے بھی تیارہوں ،یہ مسئلہ طلاق کا نہیں ہے، بلکہ خالص جائیداد کا تنازعہ ہے جس میں لوگ اس وقت اس فتوی سہاراکا لیکرمجھے میرے ہی گھر سے نکالنا چاہتے ہیں ،جس طرح اوربہت سے لوگ جائیداد بیوی کے نام پر لیتے ہیں میں نے بھی ایساہی کیاجوکہ جرم نہیں ہے، آج 74سال کی عمر میں مجھے بولا جارہاہے کہ گھر جو آپ کا نہیں ہے،آپ اس فتوی کے بعد اس میں رہ نہیں سکتے ،میری گزارش ہے کہ سب سے پہلے اس بات کی وضاحت کردی جائے کہ اس فتوی کا ہمارے گھریلوتنازع سے کوئی تعلق نہیں ہے اوراس کی تحقیق پاکستان کی عدالتوں کے ذریعے کرائی جائے۔میں ذہنی اذیت کا شکارہوں کہ اچانک میری بیوی کو یہ کیسےیاد آتاہے کہ مجھے 17 سال پہلے طلاق ہوئی تھی ؟جبکہ اس نے خاندان میں بھی کسی نہیں بتایا،صرف بچے جو اس وقت 11،12سال کی عمر کے ہونگے ان کی گواہی بتاتی ہے، پتہ نہیں وہ یہ جانتےبھی ہوں گے یانہیں کہ طلاق کا مطلب کیاہے جس کی تصدیق کررہےہیں ؟پہلے مجھے پولیس کے ذریعےسے ڈرایا اوردھمکایا گیا ،اوراب عدالت میں بھی فتوی لگاکرطلاق ہونے پر اصرارکیا جارہاہے ،خدا را میری مدد کریں ،عدالت بولتی ہے کہ فتوی کی وجہ سے ہم کچھ نہیں کرسکتے، کیونکہ جامعہ نے کہا ہے کہ طلاق ہوگئی ہے ،آپ سے گزارش ہے کہ جب میں نے طلاق دی ہی نہیں اورمیری بیوی نے صرف جائیداد کے حصول اورناجائزتقسیم کےلیے اس فتوی کو سہارا بنایا ہواہے ،تو مہربانی فرماکر اس کی وضاحت کردیں کہ ہم نےصرف سوال کا جواب دیاہے، اس مسئلہ کی تصدیق عدالت کرے گی ۔ میں یہ بات واضح کردینا چاہتاہوں کہ یہ گھر میری محنت کی کمائی سے خریدا گیا ہے ،یہ گھر میری بیوی کے نام صرف اس لیے ہے کہ میری ملازمت اورٹیوشن پڑھانے کی وجہ سے میں چھٹی نہیں کرسکتاتھا،پلاٹ کے دستاویزات کی جانچ وغیرہ میں ٹائم لگتاہے تو روز روز چھٹی کرنا میرے لیے مشکل تھا، تو ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ پلاٹ میری بیوی کے نام پر ہی لیا جائے جیسے کہ بہت سے لوگ کرتے ہیں اوراس میں کوئی جرم نہیں، اس زمانے میں باربارچھٹی کرنا اوراحسن آباد آنا آسان نہیں تھا،اس لیے محض آسانی کےلیے ایساکیاگیاتھا،یہ قطعی تحفہ نہیں تھا ،بلکہ میرے اورمیری بیوی کے انتقال کے بعد میرے بچوں میں وراثت میں ملنا چاہیے، جیسے کہ شرعی حکم ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ہماراسابقہ فتوی بنیادی طورتین طلاق اوراس کے بعدمیاں بیوی کے اکھٹے رہنے سے متعلق تھا، مکان کی ملکیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ،لہذا مکان کی ملکیت کا مسئلہ تو آپ عدالت سے حل کروائیں، جہاں تک تین طلاق کے مسئلہ کا تعلق ہے تو اس کے بارےمیں عرض یہ ہےکہ مفتی غیب نہیں جانتا وہ سوال کے مطابق جواب لکھتاہے،سوال کے صحیح اورغلط ہونے کی تمام تر ذمہ داری سائل پر عائد ہوتی ہے،چونکہ آپ کی بیوی نے سابقہ استفتاء میں بڑی صراحت کے ساتھ یہ لکھاتھاکہ "انہوں نے1989یا1990میں مجھے انہیں گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے دو بار طلاقیں لکھ کردی جس کاعلم ان کے باپ اوربھائی کو بھی ہے اورمیری بیٹی اوربڑا بیٹا جو اس وقت اسکول پڑھتے تھے انہوں نے بھی وہ پرچہ پڑھا ،میرا دوسرا بیٹا اس وقت چھوٹا تھا پھرشوہر نے مہینہ سے پہلے رجوع کرلیا، میں اس وقت اپنے بھائی کے گھر رہتی تھی ،اس کے بعد انہوں پھر لڑائی کے دراران دوبارمجھے طلاقی دی کہ " میں تم کو طلاق دیتاہوں " یہ انہوں نے دوبار کہا اسوقت بھی میں اپنے بھائی کے گھررہتی تھی اورمیرے تینوں بچوں نے یہ سب کچھ سنا ،اس کے بعد میں نے ان سے کہا کہ طلاق ہوگئی ہے، اب آپ یہاں سے جائیں پر وہ نہیں گئے اورضد پر اڑ گئے کہ طلاق نہیں ہوئی" ذرا خط کشیدہ الفاظ پر غورکر یں ان میں صراحتاً پہلے دو طلاق کا ذکرہے جن پر آپ کے بھائی اوروالدبھی گواہ ہیں اوراس کے بعد بھی دو اورطلاق آپ نے دی جن پر آپ کے بچے گواہ ہیں، بناء بریں ہم نے تین طلاق کا حکم لکھاتھا اورچونکہ تین طلاق کے بعد حرمتِ مغلظہ ثابت ہوکر مرد اورعورت اجنبی بن جاتے ہیں، اس لیے یہ حکم لکھا تھاکہ ان کو اپنے گھر میں رکھنایعنی میاں بیوی کا اکھٹے رہنا اب ٹھیک نہیں،اب چونکہ آپ نے اپنے استفتاء میں طلاق دینے کا بالکلیہ انکارکیاہے جیسے کہ آپ نے لکھاکہ "میں نے اپنی بیوی کو کبھی طلاق نہیں دی اوراس پر میں حلف کھانے کےلیے بھی تیارہوں"آگے چل کربھی آپ نے لکھاہےکہ " میں نے طلاق دی ہی نہیں اورمیری بیوی نے صرف جائیداد کے حصول اورناجائزتقسیم کےلیے اس فتوی کو سہارا بنایا ہواہے" خط کشیدہ عبارت طلاق سے انکار میں صریح ہے،اب حکم یہ ہے چونکہ آپ دونوں میاں بیوی میں طلاق دینےکے حوالے سے اختلاف ہوگیاہے،آپ انکار کررہےہیں اورآپ کی بیوی اقرارکرتی ہے،پہلے تو ہم آپ دونوں کویہ نصیحت کرتے ہیں کہ یہ معمولی مسئلہ نہیں، بلکہ حلال اورحرام کامسئلہ ہے جس میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے، لہذا اپنی قبر اورآخرت کوسامنے رکھتے ہوئے جو واقعی صورتِ حال ہو اس پر عمل کریں اوریہ اچھی طرح یاد رکھیں کہ اگر واقعۃً آپ نے طلاق کے مذکورہ بالاکلمات کہے تھے چاہے آپ کا ارادطلاق کا تھا یانہیں تھا، چاہے آپ نے نارمل حالت میں یہ کلمات کہے تھے یا غصے میں بہر صورت اس سے طلاق ہوگئی ہے، اب انکارسے اورغلط بیانی کرکے مفتی سے فتوی لینےسے ہرگز بیوی آپ کے لیے حلال نہیں ہوگی اوراس غلط بیانی سےساری زندگی زناکاگناہ ہوگا، اوراگر واقعۃًآپ نے طلاق کے مذکورہ الفاظ نہیں کہےتھے توپھر طلاق نہیں ہوئی ،لہذا آپ کی بیوی کو چاہیے کہ اللہ سے ڈرے اوربلاوجہ صرف جائیداد کےتنازع کی خاطر طلاق کا بہتان لگاکراپنی آخرت خراب نہ کرے، تاہم اگر آپ اگر دونوں اپنی اپنی بات پر مصرہیں توپھر اس مسئلہ کاحکم درجِ ذیل ہوگا۔ جب میاں بیوی کے درمیان طلاق کے بارے میں اختلاف ہوجائے تو شوہر کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوتی ہے، البتہ اگربیوی گواہ پیش کردے تو پھر اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا ،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی بیوی کے پاس گواہ ہیں تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا ورنہ سائل(شوہر) کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوگی، لیکن اگر مذکورہ خاتون اپنے کانوں سے تین طلاق سننے یاتحریرمیں دیکھنےکا دعویٰ کررہی ہےاوراس کو یہ یقین ہے کہ خاوند غلط بیانی کررہاہے تو پھر اس کے حق میں طلاق واقع ہو گئی ہے، اگرچہ شوہرقسم کھانے کیلئے تیار بھی ہو،کیونکہ عورت اس معاملہ میں قاضی کی طرح ہے اور اس کے حق میں احتیاطاً تین طلاق کے وقوع کا حکم لگے گااور اب اس کے لئے شوہر کواپنے اوپر تمکین(قدرت ) دینا جائز نہیں ۔لہذا بیوی اگرخاوندسے خلع لینے اورجائز طریقے سے راہِ فرار اختیارکرنے پر قادرنہیں تو پھرعدالت سے رجوع کرے اگر عدالت بھی بیوی کے پاس گواہ نہ ہونے کی وجہ سے خاوند سے حلف لیکر اس کے حق میں فیصلہ کرلے تو پھر بیوی کواس خاوند کے ساتھ رہنے میں گناہ نہیں ہوگا،اورساراگناہ خاوند کے سرہوگا۔
حوالہ جات
وفی الدر المختار (۳۵۶/۳): ( فإن اختلفا في وجود الشرط ) ۔۔۔ ( فالقول له مع اليمين ) لإنكاره الطلاق۔۔۔ ( إلا إذا برهنت )۔وفی الرد تحتہ: قوله ( إلا إذا برهنت ) وكذا لو برهن غيرها. وفی الشامیۃ (۳۵۶/۳): ( قوله في وجود الشرط ) أي أصلا أو تحققا كما في شرح المجمع : أي اختلفا في وجود أصل التعليق بالشرط أو في تحقق الشرط بعد التعليق وفي البزازية : ادعى الاستثناء أو الشرط فالقول له ۔۔۔ قوله ( قالقول له ) أي إذا لم يعلم وجوده إلا منها ففيه القول لها في حق نفسها. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 251) المرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله. وفى حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 420) ( سمعت من زوجها أنه طلقها ولا تقدر على منعه من نفسها ) إلا بقتله ( لها قتله ) بدواء خوف القصاص ، ولا تقتل نفسها. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 465) (و) نصابها (لغيرها من الحقوق سواء كان) الحق (مالا أو غيره كنكاح وطلاق ووكالة ووصية واستهلال صبي) درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 372) (و) نصابها (لغيرها) من الحقوق سواء كان (مالا أو غيره كنكاح وطلاق ووكالة ووصية واستهلال الصبي للإرث رجلان أو رجل وامرأتان) لما روي أن عمر وعليا - رضي الله تعالى عنهما - أجازا شهادة النساء مع الرجال في النكاح والفرقة كما في الأموال وتوابعها (ولزم في الكل) في الصور الأربع المذكورة (لفظ أشهد للقبول) حتى لو قال الشاهد أعلم أو أتيقن لا تقبل شهادته لأن النصوص وردت بهذا اللفظ، وجواز الحكم بالشهادة على خلاف القياس فيقتصر على مورد النص(ولزم أيضا العدالة) الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 358) فإن اختلفا في وجود الشرط......لا بد من شهادة رجلين أو رجل وامرأتين جوهرة.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب