ایک شخص نے اپنے داماد کو زمین دی اور یہ کہا کہ یہ زمین میں آپ کو قطعی طور پر دیتا ہوں تاکہ آپ اس پر گھر بنائیں اورہائش اختیارکریں اگر آپ اس جگہ کو چھوڑنا چاہیں تو میں تعمیرپر آنے والے اخراجات ادا کرکے یہ زمین اورمکان واپس لے لوں گا،داماد نے اس جگہ پر رہائش رکھی اورکچھ عرصہ بعد تنازعہ کی وجہ سے اس جگہ کو چھوڑ کردوسری جگہ رہائش اختیارکرناچاہی تو جانبین کی رضامندی سے یہ بات طے ہوئی کہ سسر ایک سال کے اندراندر مکان کی تعمیر کے اخراجات ادا کردے گا اورداماد اس جگہ کو چھوڑدے گااوراس پر گواہ بھی موجود ہیں،مذکورہ رقم کی ادائیگی کے بعد اب داماد یہ کہتاہے کہ آپ نے زمین دیتے وقت "قطعی طورپر"کے الفاظ کہےتھے لہذا یہ زمین میری ملکیت ہے،لہذا مکان کے ساتھ ساتھ زمین کی قیمت بھی اب ادا کرنا ہوگی،جبکہ سسر کا کہنا یہ ہے کہ میں نے زمین صرف رہائش اورتعمیر کے لیے دی تھی اوررہائش نہ ہونے کی صورت میں تعمیر کی اخراجات دینے کے بعد داماد زمین واپس کرے گا۔
اب آپ حضرات سے پوچھنا یہ ہے کہ بندے کے اس لفظ "قطعی طورپر"سے مراد صرف رہائش کے لیے زمین دینا تھی اورداماد کے پاس لفظ"قطعی طور" پر گواہ بھی نہیں ہے اورسسرکی طرف سے رقم کی ادائیگی پر اورداماد کا اس مکان کے چھوڑنے کی بات پر گواہ بھی موجود ہیں۔ لہذا ایسی صورت میں اس شخص کے داماد کا زمین کی ملکیت کا دعوی کرنا کیساہے ؟برائے مہربانی مدلل جواب دیں ۔
o
صورتِ مسئولہ میں سسرکے الفاظ "یہ زمین میں آپ کو قطعی طور پر دیتا ہوں تاکہ آپ اس پر گھر بنائیں اورہائش اختیارکریں "ہبہ کے الفاظ ہیں اوراس میں یہ شرط کہ" اگر آپ اس جگہ کو چھوڑنا چاہیں تو میں تعمیرپر آنے والے اخراجات ادا کرکے یہ زمین اورمکان واپس لے لوں گا"شرطِ فاسد ہے اورہبہ چونکہ شروطِ فاسدہ سے فاسد نہیں ہوتاہے، لہذا مذکورہ ہبہ صحیح ہوگیا تھا،تاہم اگر سسرنے جرگے کے فیصلے کے بعدقیمت کی ادائیگی کرکے مکان اپنے قبضہ مین میں کرلیا ہوتو پھر داماد کو دعوے کا حق نہیں، اوراگر ابھی تک قبضہ نہ ہوا ہو تو داماد کا دعوی بجا ہے،کیونکہ یہ قبضہ سے پہلے رجوع عن الہبہ ہوگا جس میں کوئی حرنہیں۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية (4/ 396)
قال أصحابنا جميعا: إذا وهب هبة وشرط فيها شرطا فاسدا فالهبة جائزة والشرط باطل كمن وهب لرجل أمة فاشترط عليه أن لا يبيعها أو شرط عليه أن يتخذها أم ولد أو أن يبيعها من فلان أو يردها عليه بعد شهر فالهبة جائزة وهذه الشروط كلها باطلة، كذا في السراج الوهاج.
مجلة الأحكام العدلية (ص: 303)
المادة (1556) إذا تم الصلح فليس لواحد من الطرفين فقط الرجوع عنه ويملك المدعي بالصلح بدله , ولا يبقى له حق في الدعوى , وليس للمدعى عليه أيضا استرداد بدل الصلح منه.
وفی شرح المجلۃ المادۃ (51)الساقط لایعود: یعنی اذا اسط شخص حقا من الحقوق التی یجوس کہ اسقاطھا یسقط ذلک الحق وبد اسقاطہ لایعود)
وجاء فی المادۃ (1558)اذا کان الصلح فی حکم المعاوضۃ،فلطرفین فسخہ واقالتہ برضاھما،واذا لم یکن فی معنی المعاضۃ بل کان متضمنااسقاط بعض الحقوق فلایصح نقضہ وفسخہ مطلقا.
فتح القدير للكمال ابن الهمام (7/ 317)
وبعدما تم الصلح ليس لواحد أن يرجع.