021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کمیشن پر دلالی کرنا
61459وکیل بنانے کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

سوال: میں پراپرٹی ڈیلر ہوں ،کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص مجھ سے کہتاہے کہ میرا پلاٹ بکوا دو اگر 20لاکھ یا اس سے کم کا بکاتوکل قیمت کا%2یعنی40,000 آپکا ہوگا اور اگر زیادہ کا بکوا دیا تو 20لاکھ سے اوپر والے بھی آپکے ہونگے کیا یہ اوپر والے پیسے لینا میرے لیے جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شرعا یہ ضروری ہے کہ دلال کی اجرت اس طرح سے طے ہو کہ کام مکمل کرنے پر اسے کچھ نہ کچھ ضرور ملے۔اسکے علاوہ اس کو مزید کی پیشکش کرنا مالک کا احسان اور بھلائی ہے،جس کے لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ لہذا معاملے کی مذکورہ صورت درست ہے اورمطلوبہ قیمت سے اوپروالی رقم دلال کے لیے لینا جائز ہے۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63) قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة. العناية شرح الهداية (10/ 442) وللمالك أن يتصرف في ملكه كيف يشاء صحيح البخاري (2/ 794) وقال ابن عباس لا بأس أن يقول بع هذا الثوب فما زاد على كذا وكذا فهو لك واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب