021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تاریخِ اسلامی سے منافقین وزنادقہ کی چند نظائر
61452 ایمان وعقائدایمان و عقائد کے متفرق مسائل

سوال

تاریخِ اسلامی کے علمی ذخیرے میں زندیق کی سزا کی کوئی نظیر مل سکے تو نشاندہی فرمادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تاریخِ اسلام میں اس قسم کے متعدد واقعات ملتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا، جبکہ حقیقت میں وہ مسلمان نہیں تھے، اور جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا وقت کے مسلمان حکمرانوں کو ان کی حقیقت کا علم ہوا تو انہوں نے ان کو اس منافقت کی سزا دیتے ہوئے قتل کرڈالا۔ عہدِ صحابہ کے چند واقعات مثال کے طور پر نقل کیے جاتے ہیں: (الف)۔۔۔ علامہ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ "الصارم المسلول" میں مسندِ امام احمد بن حنبل کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں: "و يدل على المسألة ما روى أبو إدريس قال : [ أتي علي رضي الله عنه بناس من الزنادقة ارتدوا عن الإسلام فسألهم فجحدوا فقامت عليهم البينة العدول قال : فقتلهم و لم يستتبهم. قال: و أتي برجل كان نصر انيا و أسلم ثم رجع عن الإسلام قال : فسأله فأقر بما كان منه فاستتابه فتركه فقيل له : كيف تستتيب هذا و لم تستتب أولئك ؟ قال : إن هذا أقر بما كان منه و إن أولئك لم يقروا و جحدوا حتى قامت عليهم البينة فلذلك لم أستتبهم ] رواه الإمام أحمد. (الصارم المسلول، ص: 362) ترجمہ: اور اس مسئلہ ( منافق کی سزا قتل ہونے) کی دلیل وہ واقعہ بھی ہے جو ابو ادریس رحمہ اللہ تعالیٰ نے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ زندیق لوگوں کو لایا گیا جو مرتد ہوگئے تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے اس بارے میں پوچھا (یعنی کہ وہ واقعتاً مرتد ہوگئے ہیں یا نہیں؟) تو انہوں نے انکار کیا، پس ان پر (یعنی ان کے مرتد ہونے پر) عادل گواہی قائم ہوگئی، اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو قتل کیا اور ان سے توبہ کرنے کا نہیں فرمایا۔ ابو ادریس فرماتے ہیں کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جو پہلے نصرانی تھا، پھر اسلام لایا تھا اور اسلام لانے کے بعد پھر مرتد ہوگیا تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے اس بارے میں پوچھا (کہ کیا تم واقعتاً مرتد ہوگئے ہو؟) تو اس نے اپنے مرتد ہونے کا اقرار کیا، پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے توبہ کراکے اس کو چھوڑدیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ کیسے اس شخص سے توبہ کراتے ہیں جبکہ آپ نے ان لوگوں سے توبہ نہیں کرائی(جن کا ذکر اس سے پہلے واقعہ میں گذرا)؟ آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اس نے اپنے جرم کا اقرار کیا (اس لیے میں نے اس سے توبہ کرنے کو کہا) جبکہ ان لوگوں نے اپنے جرم کا اقرار کرنے کے بجائے اس سے انکار کیا یہاں تک کہ ان کے خلاف گواہی آگئی، اس لیے میں نے ان سے توبہ طلب نہیں کی۔ اس عبارت میں دو واقعات کا ذکر ہے۔ دونوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس مرتد لوگوں کو لایا گیا لیکن پہلے واقعہ میں آپ کے پاس جو مرتد لائے گئے تھے وہ اپنے ارتداد سے منکر تھے اور ان کے خلاف گواہی آگئی تھی، اس لیے آپ نے ان لوگوں کو توبہ طلب کیے بغیر قتل کردیا، کیونکہ یہ لوگ اپنے کفر کو چھپانے کی وجہ سے منافق اور زندیق بن گئے تھے، جس کی سزا قتل ہے۔ جبکہ دوسرے واقعہ میں اس مرتد نے اپنے جرم کا اقرار کیا اس لیے اس کو فوراً قتل نہیں کیا گیا بلکہ اس سے توبہ طلب کی گئی جس پر اس نے توبہ کرلی، اس لیے آپ نے اس کو چھوڑدیا۔ ان دونوں واقعات کے مجموعہ سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جو شخص اپنے کفر کو چھپائے اور اس کا یہ جرم ثابت ہوجائے تو اس کی سزا قتل ہے۔ (ب)۔۔۔ دوسرا واقعہ بیان کرتے ہوئے علامہ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: و روي عن أبي إدريس قال : أتي علي برجل قد تنصر فاستتابہ فأبى أن يتوب فقتله. و أتي برهط يصلون القبلة و هم زنادقة و قد قامت عليهم بذلك الشهود العدول فجحدوا و قالوا :"ليس لنا دين إلا الإسلام" فقتلهم و لم يستتبهم ثم قال : أتدرون لم استتبت هذا النصراني ؟ استتبته؛ لأنه أظهر دينه، و أما الزنادقة الذين قامت عليهم البينة و جحدوني فإنما قتلتهم لأنهم جحدوا و قامت عليهم البينة. (الصارم المسلول، ص: 362) ترجمہ: ابو ادریس سے منقول ہے کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جو نصرانی بن گیا تھا، آپ نے ان سے توبہ کرنے کو کہا، اس نے انکار کیا پس آپ نے اسے قتل کرڈالا۔ اور آپ کے پاس کچھ ایسے لوگوں کو لایا گیا جوقبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے حالانکہ وہ زنادقہ تھے اور ان کے زندیق ہونے پر عادل گواہ موجود تھے، لیکن انہوں نے زندیق ہونے کا انکار کیا اور کہا کہ: ہمارا دین اسلام ہی ہے، پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو قتل کردیا اور ان سے توبہ کرنے کو نہیں فرمایا۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے اس نصرانی سے کیوں توبہ کرنے کو کہا؟ (پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ) میں نے اس سے اس لیے توبہ کرنے کو کہاکہ اس نے اپنے دین کا اظہار کیا، جہاں تک زنادقہ کا تعلق ہے جن کے خلاف بینہ قائم ہوگیا تھا اور انہوں نے میرے سامنے (زندیق ہونے سے) انکار کیا تو میں نے ان کو اس لیے قتل کیا کہ انہوں نے انکار کیا اور ان پر بینہ قائم ہوگیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس بیان پر علامہ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: فهذا من أمير المؤمنين عَلیٍٍّ بيان أن كل زنديق كتم زندقته و جحدها حتى قامت عليه البينة قتل و لم يستتب. و أن النبي صلى الله عليه و سلم لم يقتل من جحد زندقته من المنافقين لعدم قيام البينة. (الصارم المسلول، ص: 362) ترجمہ: یہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اس بات کا بیان ہے کہ ہر وہ زندیق جو اپنے زندقہ کو چھپائے اور اس سے انکار کرے یہاں تک کہ اس کے خلاف گواہی آجائے تو اس کو قتل کیا جائے گا اور اس سے توبہ نہیں طلب کی جائے گی۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان منافقین کو جنہوں نے اپنا زندقہ چھپایا تھا، اس لیے قتل نہیں کیا کہ ان کے خلاف بینہ قائم نہیں ہوئی تھی۔ اس واقعہ سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جوشخص اپنے کفر کو چھپائے اور اس کے خلاف گواہی آجائے، اس کی سزا قتل ہے۔ (ج)۔۔۔ علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ "اعلاء السنن: 11/5373" میں لکھتے ہیں: باب لا یستتاب الزندیق وهو الذی یظهر الإسلام ویخفی الکفر 4284- روی الثوری عن أبی إسحاق عن حارثة بن مضرب: أنہ أتی عبد اللہ فقال: مابینی وبین أحد من العرب إحنة (حقد)، وإنی مررت بمسجد بنی حنیفة فإذا ھم یؤمنون بمسیلمة، فأرسل إلیھم عبد اللہ، فجاء بھم واستتابھم غیر ابن النواحة، قال لہ: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: لو لا أنك رسول لضربت عنقك، فأنت الیوم لست برسول، أین ما کنت تظھر من الإسلام؟ قال: کنت أتقیکم بہ، فأمر بہ قرظة بن کعب فضرب عنقہ بالسوق ثم قال: من أراد أن ینظر إلی ابن النواحة قتیلاً بالسوق؟. أخرجہ الجصاص فی "أحکام القرآن" لہ، والمذکور من السند صحیح، والمحدث لایسقط من أھل الإسناد إلا ما کان سالماً، وأصلہ عند أبی داود فی "سننہ" إلا قولہ: أین ما کنت تظھر من الإسلام؟ قال: کنت أتقیکم بہ. ورواہ الأثرم بإسنادہ عن ظبیان بن عمارة: أن رجلاً من بنی سعد مر علی مسجد بنی حنیفة فذکر الحدیث، وفیہ: فأتی بھم فتابوا، فخلی سبیلھم إلا رجلاً منھم یقال لہ: ابن النواحة قال: قد أتیت بك مرة فزعمت أنك قد تبت وأراك قد عدت فقتلہ. کذا فی "المغنی" لابن قدامة. رواہ الطحاوی والدارمی عن ابن معید السعدی أبسط منہ، کما فی "جمع الفوائد" وفی "مجمع الزوائد" عزاہ إلی أحمد، وقال: ابن معیر لم أعرفہ والباقون ثقات. اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ کو کچھ لوگوں کے بارے میں اطلاع ملی کہ وہ مسیلمہ کذاب پر ایمان رکھتے ہیں، آپ نے ان کو بلایا اور ان سے توبہ کرائی، سوائے "ابن النواحۃ" نامی شخص کے کہ اس سے آپ نے فرمایا: میں نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (تجھ سے) یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ: "اگر تو (ابن النواحۃ) قاصد نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑادیتا"۔ پس آج تو قاصد نہیں ہے، کہاں ہے تمہارا وہ اسلام جس کو تم ظاہر کرتے تھے؟ اس نے جواب دیا کہ اس کے ذریعے میں تم لوگوں سے اپنے آپ کو بچاتا تھا، پس آپ نے حضرت قرظہ بن کعب کو اس کے قتل کا حکم دیا، چنانچہ انہوں نے اس کی گردن اڑادی۔ قال العلامة ظفر أحمد العثمانی ؒفی شرح ھذہ الروایة: قولہ : "روی الثوری إلخ" قال الجصاص: فھذا مما یحتج بہ من لم یقبل توبة الزندیق، وذلك؛ لأنہ أی عبد اللہ –استتاب القوم، وقد کانوا مظھرین لکفرھم، وأما ابن النواحة فلم یستتبہ؛ لأنہ أقر أنہ کان مسراً للکفر مظھراً للإیمان علی وجہ التقیة، وقد کان قتلہ إیاہ بمحضر من الصحابة؛ لأن فی الحدیث أنہ شاور الصحابة فیھم اھ. وقال الطحاوی: فھذا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قد قتل ابن النواحة، ولم یقبل توبتہ إذ علم أن ھکذا خلقہ یظھر التوبة إذا ظفر بہ، ثم یعود إلی ما کان علیہ إذا تخلی اھ عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہ دو تین نظائر بطورِ نمونہ نقل کی گئی ہیں جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے جو شخص اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے جبکہ حقیقت میں وہ غیر مسلم ہو اور اس کے خلاف یہ بات شرعی اعتبار سے پایۂ ثبوت کو پہنچ جائے تو اس کی سزا قتل ہے۔
حوالہ جات
.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب