021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گروی رکھی ہوئی زمین میں مرتہن کا کاشتکاری کرنا
61487/57گروی رکھنے کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اِس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے ہاں جب کسی کو رقم کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ دوسرے شخص سے لے لیتا ہے اور اس کے پاس اپنی زمین رہن کے طور پر رکھ لیتا ہے۔پھر قرض دینے والا شخص اس زمین میں فصل کاشت کرتا ہے،اور جب فصل تیار ہو جاتی ہے تو اس کے دو حصے کیے جاتے ہیں،ایک حصہ زمین پر ہونے والے خرچ میں کاٹ دیا جاتا ہے اور دوسرے حصے کی قیمت لگا کر قرضے کی رقم سے کاٹ لی جاتی ہے۔اِس طرح سے چند سالوں بعد قرض ختم ہو جاتا ہے اور زمین اصل مالک کے پاس واپس آجاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ صورت درست ہے یا نہیں؟ تنقیح مستفتی سے استفسار کے بعد معلوم ہوا کہ زمین پر جتنا خرچ آتا ہے اتنا ہی مرتہن فصل میں سے لیتا ہے،مطلقاً نصف نہیں لیا جاتا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں دو عقد ہورہے ہیں،ایک رہن کا اور دوسرا مزارعت کا۔دونوں کو جمع کیا جا سکتا ہے،جس کا طریقہ یہ ہے کہ بیج زمین کے مالک کی طرف سے مرتہن خود ہی ڈال دے اور فصل تیار ہو نے کے بعد پہلے بیج وغیرہ کی قیمت کے بقدر فصل سے کاٹ لیا جائے،پھر بقیہ فصل کو عقدِ مزارعت میں طے شدہ حصوں کی بقدر تقسیم کر دیا جائے۔پھر جو حصہ زمین کے مالک کو ملے اس کی قیمت لگا کر قرض کی ادائیگی کر دی جائے۔ یاد رہے کہ یہ دو الگ الگ عقد باقاعدہ ہونے چاہییں،محض اندازے سے فصل تقسیم کرنا جائز نہیں۔
حوالہ جات
عن خبيب بن سليمان بن سمرة عن أبيه عن جده سمرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال :” من رهن أرضا بدين عليه فإنه يقضي من تمرها ما فضل على نفقتها ، فيقضي من ذلك دينه الذي عليه بعد أن يحسب الذي بقي له عنده عمله ونفقته بالعدل“.هذا إسناد ضعيف ،سليمان وابنه خبيب وجعفر بن سعد ذكرهم ابن حبان في الثقات وضعفهم . (إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانیدالعشرۃ:حدیث:2883) وقال الشامی رحمہ اللہ:” وفيها: وإن أخذ المرتهن الأرض مزارعة بطل الرهن لو البذر منه، ولو من الراهن فلا اهـ. أي: لما قدمناه في كتاب المزارعة أن الأصل أن رب البذر هو المستأجر، فإن كان هو العامل كان مستأجرا للأرض، وإن كان هو رب الأرض كان مستأجرا للعامل.(ردالمحتار:10/101) وفی الھندیۃ:” ولو كان الرهن أرضا بيضاء فمزارعة الراهن، والبذر من المرتهن، جائزة .والخارج على الشرط ،وقد خرجت من الرهن، ولا تعود إليه إلا بتجديد. ولو كان البذر من الراهن فللمرتهن أن يعيدها رهنا بعد الزرع. ولو ارتهن أرضا بيضاء وفيها نخيل فأمره أن يزرع الأرض سنة ببذره وعمله بالنصف ويقوم على النخيل ويسقيه ويلقحه ويحفظه بالنصف فالمزارعة جائزة والمعاملة فاسدة؛ لأنه لو أفرد المزارعة على الأرض جازت وتخرج عن الرهن.(فتاوی عالمگیری:5/264)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب