021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دو مقامات پر جائیداد اور مکان ہو تو سفر کے وقت نماز کا حکم
61488/57نماز کا بیانمسافر کی نماز کابیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ(1) ایک شخص اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے آبائی گاؤں میں رہتا ہے،لیکن اس نے تقریباً سو کلو میٹر دور کچھ زمین خرید کر اس پر ایک اور مکان بھی بنا رکھا ہے اور سردی کے موسم میں چند ماہ کے لیے اپنے اہل وعیال کو لے کر یہاں آ جاتا ہے،پھر واپس اپنے آبائی علاقے میں چلا جاتا ہے۔ (2)اسی طرح یہاں کچھ لوگوں نے اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر مستقل طور پر دوسری جگہ رہائش اختیار کر لی ہے۔ (3)جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس دوسری جگہ میں مکانات تو بنائے ہیں،لیکن وہ اپنے گھر والوں کو لے کر رہائش کے لیے یہاں کبھی نہیں آئے،بلکہ وہ مکانات کرائے پر دئیے ہوئے ہیں اور ان کی اپنی رہائش پورا سال آبائی علاقے میں ہی ہوتی ہے۔اب ان تین قسم کے لوگوں کے بارے میں پوچھنا یہ ہے کہ 1-اگر پہلی قسم کے لوگ کبھی 15 دن سے کم مدت کے لیے اپنی اس نئی جگہ میں آئیں تو کیا نماز قصر پڑھیں گے یا پوری؟ 2- دوسری قسم والے اگر چار،پانچ دن کے لیے آبائی علاقے میں جائیں تو ان کی نماز کا کیا حکم ہو گا؟ 3-تیسری قسم والے جب اپنی اس نئی جگہ میں چار،پانچ دن کے لیے آئیں تو نماز کیسے پڑھیں گے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1- مذکورہ صورت میں دوسرے مقام کے وطنِ اصلی یا وطنِ اقامت ہونے میں اختلاف ہے،البتہ راجح یہ ہے کہ دوسرا گھر بھی وطنِ اصلی ہے،لہذا جب بھی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف سفر کریں گے تو دورانِ سفر تو نماز قصر ہو گی،لیکن وہاں پہنچ کر پوری نماز پڑھنا ہو گی۔ 2- اگر پہلے وطن کو چھوڑ کر نئی جگہ وطنِ اصلی بنا لیا تو پہلا مقام وطنِ اصلی باقی نہیں رہا،وہاں 15 دن سے کم ٹھہرنے کی نیت سے جانے پر مسافر شمار ہوں گے اور نماز قصر پڑھیں گے۔ 3- ان کے لیے پہلا وطن ہی وطنِ اصلی ہے۔دوسری جگہ اگر 15 دن سے کم کی نیت سے آئیں گے تو مسافر ہی ہوں گے اور نماز قصر کریں گے ۔ واضح رہے کہ ان تمام مسائل میں دونوں مقامات کے درمیان شرعی مسافت(تقریباً 78 کلو میٹر)کا ہونا ضروری ہے۔
حوالہ جات
قال ابن نجیم رحمہ اللہ:قوله:”ويبطل الوطن الأصلي بمثله لا السفر ،ووطن الإقامة بمثله والسفر والأصلي“؛ لأن الشيء يبطل بما هو مثله لا بما هو دونه، فلا يصلح مبطلا له … والوطن الأصلي هو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها. وهذا الوطن يبطل بمثله لا غير، وهو أن يتوطن في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها فيخرج الأول من أن يكون وطنا أصليا حتى لو دخله مسافرا لا يتم. وفي المحيط: ولو كان له أهل بالكوفة وأهل بالبصرة، فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة، قيل: البصرة لا تبقى وطنا له؛ لأنها إنما كانت وطنا بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطنا له، وقيل :تبقى وطنا له؛ لأنها كانت وطنا له بالأهل والدار جميعا، فبزوال أحدهما لا يرتفع الوطن كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر اهـ. وفي المجتبى نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له دور وعقار ثم قال:” وهذا جواب واقعة ابتلينا بها وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد، ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم ،فلا بد من حفظها أنهما وطنان له لا يبطل أحدهما بالآخر.(البحر الرائق:2/147) قال الحصکفی رحمہ اللہ: (الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه (يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل.فلو بقي لم يبطل ،بل يتم فيهما (لا غير و) يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بالوطن (الأصلي و) بإنشاء (السفر) والأصل أن الشيء يبطل بمثله، وبما فوقه لا بما دونه . وقال الشامی رحمہ اللہ: قوله:( الوطن الأصلي) ويسمى بالأهلي ووطن الفطرة والقرار. ح عن القهستاني.قوله ):أو تأهله) أي تزوجه. …ولو كان له أهل ببلدتين فأيتهما دخلها صار مقيما، فإن ماتت زوجته في إحداهما وبقي له فيها دور وعقار قيل: لا يبقى وطنا له ،إذ المعتبر الأهل دون الدار كما لو تأهل ببلدة واستقرت سكنا له وليس له فيها دار، وقيل :تبقى. اهـ.(الدرالمختار مع ردالمختار:2/535-537،دارإحیاءالتراث العربی)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب