021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں جائیداد صرف بیٹوں کے درمیان تقسیم کرنا،اولاد کے ہبہ میں تفاضل
61469/57ہبہ اور صدقہ کے مسائلکئی لوگوں کو مشترکہ طور پرکوئی چیز ہبہ کرنے کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم خاندان میں چھ بھائی اور پانچ بہنیں ہیں،والدین بھی زندہ ہیں۔والد صاحب نے اپنی ذاتی کمائی سے پانچ مرلہ جگہ خریدی،دو بھائیوں کو گاڑیا ں لے کر دیں۔دونوں بھائی ان گاڑیوں پر کمائی وغیرہ کرتے ہیں۔یہ دونوں بھائی اور والد صاحب اکٹھے رہتے ہیں،مشترکہ طور پر گھر کے اخراجات چلاتے ہیں۔ان دونوں بھائیوں نے گاڑیوں پر جو کمائی کی تھی اس سے مزید ستائیس مرلہ زمین خرید لی ہے اور اس کا انتقال بھی والد کے نام پر ہے۔والد صاحب خود دودھ کا کاروبار کرتے ہیں۔والدین اپنی زندگی میں مذکورہ زمین کو صرف چھ بیٹوں کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔بیٹیوں سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ ان کو جہیز کی صورت میں ان کا حصہ دے دیا گیا ہے اور ہم نے جہیز اسی ارادہ سے دیا تھا اور بعض بیٹیوں کی شادی کے وقت بیٹوں کے سامنے یہ بات کی تھی کہ بیٹیوں کا حصہ جہیز کی صورت میں دے رہے ہیں اور بیٹوں کو زمین تقسیم کر کے دیں گے۔ مذکورہ تفصیل کی روشنی میں درج ذیل سوالات کے مفصل و مدلل جوابات مطلوب ہیں: 1-والد نے دو بیٹوں کو جو گاڑیاں لے کر دی ہیں ان پر کی گئی کمائی کس کی ملکیت ہے؟والد نے یہ گاڑیاں بطورِ تملیک بیٹوں کو نہیں دیں،البتہ وہ یہ کہتے ہیں کہ وفات کے بعد یہ گاڑیاں ان ہی بیٹوں کے پاس رہنے دی جائیں۔ 2-اس کمائی سے جو زمین 27 مرلہ خریدی خریدی گئی،وہ والد کی ملکیت ہے یا بیٹوں کی؟ 3-والدین کا اپنی زندگی میں مذکورہ جائداد صرف بیٹوں کے درمیان تقسیم کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟جائز یا ناجائز؟اگر ناجائز ہے تو بدرجہ حرام ہے یا مکروہ ہے؟بہنیں سب شادی شدہ ہیں،اپنے اپنے گھروں میں آباد ہیں،بھائیوں کی کوئی ملکیتی زمین نہیں ہے،مقامی طور پر کچھ حضرات احسن الفتاوی کے حوالے سے کراہتِ تنزیہی کا قول فرما رہے ہیں؟تشفی بخش وضاحت مطلوب ہے! 4-اگر جائداد مذکورہ صورت میں صرف بیٹوں کے درمیان تقسیم کرنا درست نہیں ہے تو یہ جائداد سب بہن بھائیوں کے درمیان شرعی طور پر کیسے تقسیم ہو گی؟ 5-اگر شرعی تقسیم کی صورت میں کسی فرد کو اتنا کم حصہ مل رہا ہو کہ وہ اپنے حصہ پر بقدرِ کفایت مکان نہ بنا سکتا ہو تو بجائے جائداد دینے کے اس کے حصہ کی بقدر قیمت دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ 6-اگر قیمت دینی جائز ہو تو قیمتِ خرید دی جائے گی یا موجودہ قیمت دینا لازم ہو گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1-یہ کمائی اور گاڑیاں سب والد کی ملکیت ہیں ،کیونکہ یہ دونوں بیٹے اپنے والد کے ساتھ رہتے ہیں اور گھر کے اخراجات مشترکہ طور پر چلتے ہیں،اس لیے یہ والد کی کفالت میں شمار ہوں گے،اور والد کا ان گاڑیوں کی دونوں بیٹوں کے لیے وصیت کرنا درست نہیں،کیونکہ بیٹے وارث ہوتے ہیں اور وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں،البتہ اگر تمام ورثہ بشمول بیٹیاں والد کی وفات کے بعد وراثت کے حصے کے طور پر گاڑیاں انہی بیٹوں کے پاس چھوڑنا چاہیں تو جائز ہے۔ 2-یہ زمین بھی والد کی ملکیت ہو گی۔ 3،4-اگر والدین اپنی زندگی میں یہ تقسیم کر رہے ہیں تو پھر یہ جائداد اور جہیز سب ہبہ کے حکم میں ہے۔لہذا جب بیٹیوں کو جہیز کی صورت میں اور بیٹوں کو جائداد کی صورت میں حصہ دے دیا تو یہ جائز ہے۔اگر کچھ جائداد باقی رکھی جائے گی تو والد صاحب کی موت کی صورت میں سب زندہ ورثہ اس میں شریک ہوں گے۔البتہ اگر ابھی تقسیم نہیں کر رہے،بلکہ اس طرح تقسیم کرنے کی وصیت کر رہے ہیں تو پھر یہ تقسیم درست نہیں ہوگی،کیونکہ اس صورت میں سب جائداد میراث شمار ہوگی اور ”للذکر مثل حظ الانثیین“کے تحت تمام زندہ بیٹوں اور بیٹیوں کو حصہ ملے گا۔ 5-جی ہاں یہ شخص باہمی رضامندی سے اپنا حصہ باقی بھائیوں کو بیچ دے اور ان سے اس کی قیمت لے لے،پھر وہ اس حصے کو آپس میں تقسیم کردیں۔ 6- جس وقت یہ اپنے حصے کو فروخت کرے گا تو اسی وقت کی قیمت معتبر ہو گی،البتہ بلا کسی جبر کے باہمی رضامندی سے جو قیمت بھی طے کریں گے اس پر بیچنا جائز ہو گا۔
حوالہ جات
عن عامر قال: سمعت النعمان بن بشير رضي الله عنهما، وهو على المنبر، يقول : أعطاني أبي عطية ،فقالت عمرة بنت رواحة: لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه و سلم. فأتى رسول الله صلى الله عليه و سلم ،فقال: إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية ،فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله .قال :” أعطيت سائر ولدك مثل هذا؟“ قال: لا، قال :”فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم “ ، قال: فرجع، فرد عطيته. ) صحيح البخاري،حدیث:2447) عن عمرو بن خارجة أن النبي صلى الله عليه و سلم خطبهم ،وهو على راحلته ،وإن راحلته لتقصع بجرتها، وإن لغامها ليسيل بين كتفي. قال: ”إن الله قسم لكل وارث نصيبه من الميراث ،فلا يجوز لوارث وصية “. (سنن ابن ماجه،حدیث:2772) قال ابن نجیم رحمہ اللہ:” يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء ،وهو آثم، كذا في المحيط وفي فتاوى قاضي خان. وفي الخلاصة: المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة. ( البحر الرائق شرح كنز الدقائق: 7/ 288) وقال ابن عابدین رحمہ اللہ: وفي الخانية: زوج بنيه الخمسة في داره ،وكلهم في عياله ،واختلفوا في المتاع فهو للأب ،وللبنين الثياب التي عليهم لا غیر.(ردالمختار:6/497) وقال الحصکفی رحمہ اللہ: وفي الخانية :لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة؛لأنها عمل القلب.وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار. وإن قصده فسوى بينهم، يعطي البنت كالابن عند الثاني ،وعليه الفتوى .ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم. وقال الشامی رحمہ اللہ:قوله:(وعليه الفتوى) أي :على قول أبي يوسف من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي، هو قول محمد .رملي.(الدرالمختار مع ردالمختار:8/583) وفی الھندیۃ: ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا.وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين.وإن كانا سواء يكره. وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار.وإن قصد به الإضرار سوى بينهم.يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن ،وعليه الفتوى. هكذا في فتاوى قاضي خان ،وهو المختار، كذا في الظهيرية. رجل وهب في صحته كل المال للولد جاز في القضاء، ويكون آثما فيما صنع،كذا في فتاوى قاضي خان. )الفتاوى الهندية: 4 / 391) وفی الھدایۃ:ويجوز بيع أحدهما نصيبه من شريكه في جميع الصور ومن غير شريكه بغير إذنه إلا في صورة الخلط والاختلاط، فإنه لا يجوز إلا بإذنه .(الھدایۃ:3/5)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب