021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کشف اور عمل حاضرات کی حقیقت اورشرعی حیثیت
61476ذکر،دعاء اور تعویذات کے مسائلرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجنے کے مسائل ) درود سلام کے (

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ مولوی عبد الرحمان جو کہ ایک مسجد کا امام وخطیب اور مدرسہ کا مہتم ہے ،لوگوں کا علاج کرتا ہے، سحر ،بیماری ،جادو ،جنات کا علاج کرتا ہے، جس کا طریقہ علاج یہ ہے کہ مریض کی آنکھیں بند کراتا ہے اور آیۃ الکرسی پڑھکر سامنے پھونک مارتا ہے اور کہتا ہے ہمارے موکل عبد اللہ اپنی فوج کے ساتھ حاضر ہوجائیں اور مثلا زید پر جو کچھ اثرات بھی ہیں ،ان سب کو حاضر کریں اللہ کے حکم سے، زید پر جو کچھ بھی اثرات ہیں اللہ کے حکم سے حاضر ہوجائیں، چنانچہ اللہ کے حکم سے جس کی نگاہ کھل جائے ،اس کو نظر بھی آنا شروع ہوجاتا ہے، پھر مریض پر جو کچھ جنات حاضر ہوجائیں ان کو اسلام کی تین مرتبہ دعوت دیتے ہیں ،کلمہ پڑھ لیں ،جو مسلمان ہوگئے، وہ بیت اللہ چلے جائیں اور جو مسلمان نہ ہوں ، ہمارے موکل ان کو قتل کریں ، مریض اللہ کے حکم سے ٹھیک ہوجاتا ہے۔

علاوہ اس کے مولوی عبد الرحمان کا کہنا ہے کہ میرے استاذ نے کہا تھا، جب ضرورت ہو تو آسمانی فوجیں بھی بلالیا کرو حتی کہ جبریل علیہ السلام کو بھی بلالیا کرو یہ کہکر کہ اللہ  کے حکم سے جبریل علیہ السلام اور آسمانی فوج بھی حاضر ہوجائیں،حتی کہ مریض جن کی نگاہ کھل جائے تو ان کو نظر بھی آرہا ہوتا ہے کہ آسمان سے فوجیں اتر رہی ہیں اور مریض پر جو کچھ جنات ہیں، ان کو قتل کرتے ہیں، حتی کہ مریض ٹھیک ہوجاتا ہے۔

قابل دریافت طلب امور یہ ہیں:

۱۔ اس طرح علاج کرنا جائز ہے یا نہیں؟

۲۔پھر مریض سے یہ بھی کہنا کہ جنات کا علاج کروں گا تو دو ہزار روپے لونگا، کسی غریب سے نہیں بھی لیتے؟

۳۔مولوی عبد الرحمان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

۴۔اگر مذکورہ امور جائز ہیں تو کسی نمازی کا بلاوجہ مخالفت کرنا کیسا ہے؟

۵۔مولوی عبد الرحمان عقائد علماء دیوبند کا پکا پابند ہے، اللہ نے علاج کی بڑی طاقت وقوت دی ہے، اگر یہ علاج نہ کرے تو لوگ پھر ایسوں کے پاس جاتے ہیں، جو جھوٹ بھی بولتے ہیں ،مال بھی لوٹتے ہیں اور ایمان بھی لوٹتے ہیں؟

۶۔ایک بزرگ ۸۲ سال عمر ہے، متبع سنت ہے ، حافظ قرآن ہے، پچاس سال سے ایک مسجد کا امام ہے اور روزانہ ۵ پارے پڑھنے کا معمول ہے،ہر وقت مسجد میں رہتا ہے، اس کا کہنا ہے کہ  میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتا ہوں ، جو کوئی صاحب کشف ہو وہ مجھے دیکھ لے۔

۷۔ ان بزرگ کا کہنا ہے کہ عالم برزخ کے تمام لوگوں  سے ملاقات کرسکتا ہوں، اللہ نے میری نگاہ کھولی ہوئی ہے، میں کھلی آنکھوں بہت کچھ دیکھ رہا ہوتا ہوں، اللہ نے عالم دنیا،عالم برزخ برابر کیا ہوا ہے۔کیا یہ سب باتیں ممکن ہیں؟

۸۔ جبریل علیہ السلام کا اللہ کے حکم سے کسی کی مدد کےلیے آنا ممکن ہے؟

۹۔جنات کے علاج میں مدد کے لیے جبریل علیہ السلام کو بلانا جائز ہے یا نہیں ؟ اور ان کا آنا ممکن ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کشف کی حقیقت اور حیثیت:

قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد مبارک ہے: {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا } [المائدة: 3]

چنانچہ اس آیت کی روشنی میں علماء امت  روز اول سے یہ فرماتے چلے آرہے ہیں کہ دین  اسلام مکمل ہوچکا ہے، لہذا ہم اپنے دین وایمان عقائد واعمال اور ان کے تفصیلی احکام کے جاننے اور حاصل کرنے میں صرف قرآن وسنت کے محتاج ہیں،چنانچہ ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالی شرح فقہ اکبر میں اور علامہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ تعالی شرح عقیدۃ الطحاویہ میں  یہی لکھتے ہیں،البتہ قرآن وسنت کی تشریح کے لیے خود ان کے علاوہ انہی کی ہدایت اور مقرر کردہ حدود کی روشنی میں قرآن وسنت سے ثابت  دوذیلی مآخٍذ کے بھی محتاج ہیں،جن میں سے ایک اجماع اور دوسرا قیاس صحیح ہے،لہذا قرآن وحدیث کی براہ راست یابالواسطہ توثیق وتایید کے بغیر کوئی کام یا طریقہ دین کا حصہ نہیں بن سکتا۔

شرح الطحاوية - ط الأوقاف السعودية (ص: 46)

كذلك السنة تأتي مبينة ومقررة لما دل عليه القرآن، لم يحوجنا ربنا سبحانه وتعالى إلى رأي فلان، ولا إلى ذوق فلان، ووجده في أصول ديننا. ولهذا تجد من خالف الكتاب والسنة مختلفين مضطربين. بل قد قال تعالى: {اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا} (7). فلا يحتاج في تكميله إلى أمر خارج عن الكتاب والسنة.

وإلى هذا المعنى أشار الشيخ أبو جعفر الطحاوي فيما يأتي من كلامه بقوله: لا ندخل في ذلك متأولين بآرائنا، ولا متوهمين بأهوائنا، فإنه ما سلم في دينه إلا من سلم لله - عز وجل - ولرسوله - صلى الله عليه وسلم.

بلکہ امام مالک رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ دین میں نیا طریقہ نکانے والا درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تبلیغ دین کے سلسلہ میں خیانت کے الزام کا مرتکب قرار پاتا ہے،لہذا جو کام اور طریقہ کل دور رسالت میں دین نہیں تھا تو وہ آج بھی دین یا دین کا حصہ نہیں بن سکتا ۔ جبکہ ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ "اس امت کے آخری طبقہ کی اصلاح بھی صرف اسی طریقہ سے ہوسکتی ہے، جس طریقہ  سے پہلے طبقہ کی اصلاح ہوچکی ہے۔":

الاعتصام للشاطبي ت الهلالي (1/ 64)

قال ابن الماجشون: سمعت مالكا يقول: " من ابتدع في الإسلام بدعة يراها حسنة، زعم أن محمدا صلى الله عليه وسلم خان الرسالة، لأن الله يقول: {اليوم أكملت لكم دينكم} [المائدة: 3]، فما لم يكن يومئذ دينا، فلا يكون اليوم دينا.

منهاج السنة النبوية (2/ 444)

وقال(الامام مالک): إنما يصلح آخر هذه الأمة ما أصلح أولها.

لہذاکشف وکرامات، الہامات اور منامات بلکہ صوفیاء کرام کے اقوال وارشادات کوبھی دین اسلام کے تشریحی وتفسیری مآخذ کی حیثیت اور مرتبہ دینےکی علماء امت سختی سے تردید فرماتے چلے آرہے ہیں،کیونکہ یہ ظنی بلکہ ان میں بعض محض خیالی چیزیں بھی ہیں،جن سے دین یا اسکےبعض احکام کی تشریح نہیں کی جاسکتی۔(لہذا مستفتی کی طرف سے (عمل حاضرات  وغیرہ کی تایید کے لیے)استفتاء کے ساتھ منسلک اور لف کردہ حافظ عبد العزیزکی دروس وخطبات پر مشتمل کتاب" روحانی انٹرنیٹ" جس کی بنیادچونکہ خود کتاب کے تعارف نامہ اوردیباچہ وغیرہ کی رو سےمحض کشف پر مبنی ہے،لہذااس  کتاب کے مضامین کی کوئی مستقل شرعی حیثیت اور اہمیت نہیں ،لہذاشرعا یہ کوئی سند اور حجت نہیں بالخصوص تفسیر قرآن اور احکام شرعیہ(حلال وحرام، جائزوناجائزوغیرہ) کے بارے میں،نیز کشف چونکہ  ازقبیل کرامت ہےاور کرامت کوحیض الرجال کہاگیا ہے،(روح المعانی،یونس)جس کا اخفاء مقصود ہوتا ہے،نہ کہ اظہار چہ جائیکہ تشہیراورنشر واشاعت،بلکہ اس پر فتن دور میں عوام میں اس طرز عمل کے بیانات اور دروس خود قرآن مجید اورذخیرہ احادیث صحیحہ سے بے اعتمادی کی راہ ہموار کرتےہیں،ایسے اہل کشف حضرات کو اس طرح کے خطرات اور خدشات کا ادراک اوراپنے اخروی جوابدہی کا احساس  کرکے سلف صالحین ،صوفیہ محققین،اوراکابر علماء دیوبند کے طریقہ کے مطابق اپنی مذہبی ومنصبی فریضہ وذمہ داری(اتباع ودعوت قرآن وسنت) پر توجہ دینی چاہئے،اس لیے کے تصوف کی اصل روح یہی ہے،نیزایسےاہل کشف حضرات کواپنےطرز عمل پرنظرثانی کرنےکے ساتھ ساتھ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ تعالی کی کتاب "تلبیس ابلیس" کا مطالعہ کرنا چاہئے کہ شیطان مولویوں،صوفیوں اور دینداروں کودینداری، خدمت دین،علم وتحقیق کے نام پر کیسے  کیسے گمراہ کرتا ہے؟اس موقع پر امام مالک   وغیرہ رحمہم اللہ تعالی کے مذکورہ بالا ارشادات کے ساتھ ساتھ سیدالطائفہ امام المشایخ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالی کا یہ مشہور ارشاد  بھی خصوصی توجہ طلب ہے،فرماتے ہیں کہ

"عمل صوفیہ در حل وحرمت سند نیست، ہمیں بس است کہ ماایشاں را معذور داریم وملامت نہ کنیم ومر ایشاں را بحق سبحانہ وتعالی مفوض داریم ،اینجا قول امام ابوحنیفہ وامام ابویوسف وامام محمد( رحمہم اللہ تعالی) معتبر است،نہ عمل ابو بکر شبلی وابو حسن نوری( رحمہمااللہ تعالی)"

"حضرات صوفیہ کی بات حلال وحرام ہونے میں سند نہیں، یہی کافی ہے کہ ہم ان کو ملامت نہ کریں اور ان(کے بظاہر خلاف شرع اقوال وارشادات اور افعال) کا معاملہ(خود ان کے حق میں) خدا کے سپرد کردیں، اس جگہ حضرت امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف  اور امام محمد(رحمہم اللہ تعالی) کا قول معتبر ہوگا ،نہ کہ ابوبکر شبلی اور ابو حسن نوری جیسے صوفیہ کرام کا عمل۔( مکتوبات دفتر اول :ص۳۳۵،مکتوب ص۲۶۶)"

(اس بارے میں مزیدتفصیل اورمعلومات کے لیے حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب رحمہ اللہ تعالی کے دو وعظ" کشف کی حقیقت "اور" وہم کا علاج " بھی ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔)

تفسير الألوسي = روح المعاني (7/ 217)

وعلى هذا لا ينبغي للصوفي أن يخاطب العامة باصطلاح الصوفية لأنهم لا يعرفونه، وخطابهم بذلك مثل خطاب العربي بالعجمية أو العجمي بالعربية، ومنشأ ضلال كثير من الناس الناظرين في كتاب القوم جهلهم باصطلاحاتهم فلا ينبغي للجاهل بذلك النظر فيها لأنها تأخذ بيده إلى الكفر الصريح بل توقعه في هوة كفر، كفر أبي جهل إيمان بالنسبة إليه، ومن هنا صدر الأمر السلطاني إذ كان الشرع معتني به بالنهي عن مطالعة كتب الشيخ الأكبر قدس سره  

نعمة الذريعة في نصرة الشريعة (ص: 138)

أقول انظر ما أمكره في ترويج باطله بادعائه أن الأحاديث الصحيحة قد تكون غير ثابتة في نفس الأمر فيطلع على ذلك هو وأمثاله كشفا فيخالفوننا وأنت خبير بأن هذه دعوى مجردة لا دليل عليها إذ الكشف ليس دليلا وإلا لفسد نظام الشرع إذ لا يعجز أحد عن ادعاء مثل ذلك فيعمل كل ذي هوى بمقتضى هواه ويدعي فيه الكشف وأي فساد أعظم من ذلك والله الموفق

تفسير القاسمي = محاسن التأويل (1/ 51)

وكذلك سائر الأقوال المذكورة في الفواتح مثلها في الإشكال وأعظم. ومع إشكالها فقد اتخذها جمع من المنتسبين إلى العلم، بل إلى الاطلاع والكشف على حقائق الأمور، حججا في دعا وادعوها على القرآن. وربما نسبوا شيئا من ذلك إلى عليّ بن أبي طالب، وزعموا أنها أصل العلوم، ومنبع المكاشفات على أحوال الدنيا والآخرة. وينسبون ذلك إلى أنه مراد الله تعالى في خطابه العرب الأمية التي لا تعرف شيئا من ذلك. وهو، إذا سلم أنه مراد في تلك الفواتح في الجملة، فما الدليل على أنه مراد على كل حال من تركيبها على وجوه، وضرب بعضها ببعض، ونسبتها إلى الطبائع الأربع، وإلى أنها الفاعلة في الوجود، وأنها مجمل كل مفصل، وعنصر كل موجود. ويرتبون في ذلك ترتيبا جميعه دعا ومحالة على الكشف والاطلاع.ودعوى الكشف ليس بدليل في الشريعة على حال، كما أنه لا يعد دليلا في غيرها، كما سيأتي بحول الله.

عمل حاضرات کی حقیقت اور حیثیت:

 اسلام نے جس طرح اپنے ماننے والوں کی دینی نظریاتی اور عملی رہنمائی فرمائی ہے، اسی طرح ان کے دنیوی امور میں بھی ان کے لیے کسی قدر حدود متعین اور واضح فرمائے ہیں،چنانچہ جس طرح اسلام نے کسب ومعاش اور دنیوی لین دین سے متعلق  جائز وناجائز کے حدود متعین فرمائے ہیں ،اسی طرح کھانے پینے،علاج معالجہ کے سلسلہ میں  بھی شریعت نے ان کے حدود متعین فرمادیئے ہیں۔

علاج کے کئے طریقے ہیں جن میں ایک علاج بالاورادوالرقی( وظائف اور دم کے ذریعہ علاج )بھی ہے اور اس بارے میں بہترین طریقہ  وہی ہے، جو احادیث مبارکہ میں اذکارواوراد مسنونہ کی صورت میں منقول ہے، اس میں سنت کا ثواب بھی ہے اور بشرط صدق ویقین تاثیر میں بھی بے مثل ہے۔(علامہ ابن القیم رحمہ اللہ تعالی)

الداء والدواء ط المجمع (1/ 8)

ولكن ها هنا أمر ينبغي التفطّن له، وهو أن الأذكار والآيات والأدعية التي يستشفى بها ويرقى بها، هي في نفسها نافعة شافية، ولكن تستدعي قبول المحلّ، وقوة همة الفاعل وتأثيره. فمتى تخلّف الشفاء كان لضعف تأثير الفاعل، أو لعدم قبول المنفعل، أو لمانع قوي فيه يمنع أن ينجع فيه الدواء، كما يكون ذلك في الأدوية والأدواء الحسية، فإنّ عدم تأثيرها قد يكون لعدم قبول الطبيعة لذلك الدواء، وقد يكون لمانع قوي يمنع من اقتضائه أثره. فإن الطبيعة إذا أخذت الدواء بقبول تام كان انتفاع البدن به بحسب ذلك القبول، وكذلك القلب إذا أخذ الرقى والتعاويذ بقبول تام ، وكان للراقي نفس فعالة وهمة مؤثرة، أثّر في إزالة الداء

الداء والدواء ط المجمع (1/ 26)

فصل

والأدعية والتعوذات بمنزلة السلاح، والسلاح بضاربه لا بحدّ  فقط، فمتى  كان السلاح سلاحًا تامًّا لا آفة به، والساعد ساعد قوي ، والمانع مفقود، حصلت به النكاية في العدو. ومتى تخلّف واحد من هذه الثلاثة تخلّف التأثير.

فإذا كان الدعاء في نفسه غير صالح، أو الداعي لم يجمع بين قلبه ولسانه في الدعاء، أو كان ثَمَّ مانع من الإجابة، لم يحصل الأثر.

البتہ خود احادیث مبارکہ سے اس کے علاوہ اوراد سے دم کے ذریعہ علاج کی اجازت بھی ثابت ہے ،لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کے مجہول المعنی ،مبہم یا شرکیہ اور غلط معنی والے کلمات نہ ہوں ،اسی طرح اس میں خبیث جنات سے مدد نہ لی گئی ہو،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ سے فرمایا کہ اپنے دم مجھ پر( میرے سامنے) پیش کرو، چنانچہ صحابہ کرام نے اپنے دم پیش کیے تو آپ نے ان میں سے ایسے جائزدموں کی انہیں اجازت مرحمت فرمائی اور فرمایا کہ یہ مواثیق الجن ( یعنی ان معاہدوں میں سے ہیں جن پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات سے عہد لیا تھا کہ وہ انہیں سن کر دور ہوجائیں گے) میں سے ہے۔

المستدرك على الصحيحين للحاكم (4/ 460)

أخبرنا علي بن محمد بن عقبة الشيباني، بالكوفة، ثنا إبراهيم بن إسحاق الزهري، ثنا محاضر بن المورع، ثنا الأعمش، عن أبي سفيان، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال: جاء رجل من الأنصار يقال له عمرو بن حزم، وكان يرقي من الحية، فقال: يا رسول الله إنك نهيت عن الرقى، وأنا أرقي من الحية، قال: «قصها علي» فقصها عليه، فقال: «لا بأس بهذه هذه مواثيق» قال: وجاء خالي من الأنصار وكان يرقي من العقرب، فقال: يا رسول الله إنك نهيت عن الرقى وأنا أرقي من العقرب، قال: «من استطاع أن ينفع أخاه فليفعل» هذا حديث صحيح على شرط مسلم، ولم يخرجاه "

المعجم الأوسط (5/ 266)

حدثنا محمد بن أحمد بن البراء قال: نا المعافى بن سليمان قال: نا موسى بن أعين، عن زيد بن بكر بن خنيس، عن إسماعيل بن مسلم، عن أبي معشر، عن إبراهيم، عن عبد الله بن مسعود قال: ذكر عند النبي صلى الله عليه وسلم رقية من الحمة، فقال: «اعرضوها علي» فعرضوها عليه: بسم الله، شجة قرنية، ملحة بحر قفطا، فقال: «هذه مواثيق أخذها سليمان صلى الله عليه وسلم على الهوام، لا أرى بها بأسا» . قال: فلدغ رجل، وهو مع علقمة فرقاه بها، فكأنما نشط من عقال   

استفتاء میں جس طریقہ علاج کا ذکرہے ،یہ درحقیقت حاضرات کا عمل کہلاتا ہے،اور اس کا مدار عامل کی قوت خیالیہ کی تاثیر کی استعدادپر ہوتا ہے اور یہ مشق سے حاصل ہوجاتی ہے، اس عمل کے دوران معمول کو جو چیزیں نظر آتی ہیں ان کا خارج سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ،بلکہ وہ در حقیقت عامل کی قوت خیالیہ کا  کرشمہ ہوتا ہے،جو مختلف صورتوں میں معمول کو نظر آتا ہے، یہی وجہ ہے  کہ یہ منظر صرف معمول بچے یا کمزور قوت خیالیہ والوں مثلا خواتین ہی کو نظر آتا ہے، جو عامل کی قوت خیالیہ کی تاثیر سے متاثر ہوسکے( یعنی انفعالی کیفیت جس میں زیادہ ہوسکے۔)اورمریض کو فائدہ بھی اسی قوت خیالیہ کی تاثیر کی وجہ سے ہوتا ہے ۔(امداد الفتاوی:ج۵،ص۲۹۱)اور علاج ومعالجہ کے سلسلہ میں قوت خیالیہ کی تاثیر بھی مسلمات میں سے ہے۔(مزید تفصیل کے لیے حضرت مولانامفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب رحمہ اللہ تعالی کا وعظ " آسیب کا علاج " ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔)

باقی اس عمل کا کشف بمعنی مکاشفہ عالم غیب سے کوئی تعلق نہیں،اس لیے کہ کشف بایں معنی ایک غیر اختیاری چیز ہے،جبکہ یہ ایک اختیاری عمل ہے جو مشق سے ہر شخص حاصل کرسکتا ہے،نیز یہ عمل کوئی صفت کمال بھی نہیں،اس لیے کہ اس کے لیے مسلمان ہونا ،بلکہ انسان ہونا بھی ضروری نہیں نیزکشف ومکاشفہ کے لیے عقل بھی ضروری نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کشف کا مدار ارتکاز توجہ پر ہے،جس میں جس قدر ارتکاز توجہ اور خیال زیادہ ہوگا ،اس میں کشف کی اہلیت اسی قدرزیادہ ہوگی، چنانچہ بعض احادیث سےفی الجملہ جانوروں کے لیے بھی کشف قبور ثابت ہےکہ عذاب قبر کی آواز جانور بھی سنتے ہیں، جبکہ عذاب قبر کا تعلق  بلاشبہ عالم غیب اور عالم برزخ سے ہی ہے۔

المعجم الكبير للطبراني (10/ 200)

عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن الموتى ليعذبون في قبورهم، حتى إن البهائم لتسمع أصواتهم»

الاعتصام للشاطبي ت الهلالي (1/ 268)

والثالث: ما يرجع إلى النظر في مدركات النفوس؛ من العالم الغائب، وأحكام التجريد النفسي، والعلوم المتعلقة بعالم الأرواح، وذوات الملائكة والشياطين، والنفوس الإنسانية والحيوانية. . . وما أشبه ذلك.

وهو بلا شك بدعة مذمومة إن وقع النظر فيه والكلام عليه بقصد جعله علما ينظر فيه وفنا يشتغل بتحصيله بتعلم أو رياضة؛ فإنه لم يعهد مثله في السلف الصالح، وهو في الحقيقة نظر فلسفي، إنما يشتغل باستجلابه والرياضة لاستفادته أهل الفلسفة، الخارجون عن السنة، المعدودون في الفرق الضالة، فلا يكون الكلام فيه مباحا؛ فضلا عن أن يكون مندوبا إليه.

نعم؛ قد يعرض مثله للسالك، فيتكلم فيه مع المربي، حتى يخرجه عن طريقه، ويبعد بينه وبين فريقه؛ لما فيه من إمالة مقصد السالك إلى أن يعبد الله على حرف؛ زيادة إلى الخروج عن الطريق المستقيم بتتبعه والالتفات إليه، إذ الطريق مبني على الإخلاص التام بالتوجه الصادق، وتجريد التوحيد عن الالتفات إلى الأغيار، وفتح باب الكلام في هذا الضرب مضاد لذلك كله.

تسخیر جنات حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے بطور معجزہ اور بعض صحابہ کرام اور سلف صالحین کے لیے من جانب اللہ بطور کرامت تھا ،(تفسیر سراج منیرسورہ احزاب از خطیب شربینی رحمہ اللہ تعالی)البتہ علماء امت کے نزدیک یہ عمل( تسخیرجنات) بھی تین شرطوں سے جائز ہے :ایک یہ کہ جنات مسلمان نہ ہوں ،اس لیے کہ مسلمان جنات کو قید کرنا یا مسخر کرلینا جائز نہیں۔ دوسری شرط یہ کہ صرف دفع ضرر مقصود ہو  ،محض کاروبار بنانا مقصود نہ ہو۔تیسری شرط یہ کہ جن کلمات اور اعمال کے ذریعہ انہیں مسخر کرنا ہو وہ بھی خلاف شرع نہ ہوں۔(معارف القرآن واحکام القرآن،احزاب،حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ تعالی) لیکن فرشتوں کے بارے میں یہ دعوی کہ عامل صاحب انہیں جب چاہیں بلا لیتے ہیں بالکل درست نہیں ،یہ محض ان کا ایک توہم اور تخیل ہے ،جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ،بلکہ قرآن مجید کی نصوص کے بھی خلاف ہے، اس لیے کہ قرآن مجید سے تو یہ ثابت ہے کہ فرشتے صرف اللہ تعالی کی حکم کی پابند مخلوق ہے، ارشاد خداوندی ہے: {وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَلِكَ } [مريم: 64](جبریل امین کی طرف سے اللہ تعالی فرماتےہیں کہ" ہم(فرشتے) صرف تیرے رب ہی کے حکم سے نازل ہوتے ہیں،اسی کا ہے جو ہمارے آگے ہے اور جو ہمارے پیچھے اور جو اس کے بیچ میں ہے۔")جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جبریل امین کواپنی دلی تمنا اور آرزو کے مطابق ذرا زیادہ آمد کا فرمانے پر یہ جواب ہے تو دوسرا کون ہے؟ جو اپنی مرضی سے جب چاہے جبریل امین کو مع اپنی فوج کے بلالے؟نیزارشادخداوندی ہے:{وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا } [الفتح: 7]"اور اللہ ہی کے اختیار اور تصرف میں ہیں سب لشکر آسمانوں اور زمین کے اور اللہ زبردست،حکمت والا ہے۔"ان آیات میں حصر کے صیغے اور اسلوب خصوصی توجہ طلب ہیں۔لہذافرشتوں کو کوئی بھی مسخر نہیں کرسکتااورفرشتوں کی تسخیرکےایسے خلاف شریعت دعووں سے سختی کے ساتھ اجتناب کی ضرورت ہے،نیز اسی طرح یہ بات کہ عالم برزخ کی باتیں، احوال اور وہاں کے لوگوں سے ملاقات میرے لیے ہر وقت اس دنیا میں بھی ممکن بلکہ واقع بھی ہے، قرآن مجید کے نصوص کے خلاف ہے۔ چنانچہ شہداء کی برزخی حیات کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے: {وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ} [البقرة: 154]اس آیت میں اہل دنیا کے لیےبرزخی حیات کی حقیقت کے علم کی بات تو دور، صرف معمولی شعور بھی اس دنیا میں حاصل ہونے کی نفی کی تصریح ہے ،اسی طرح ارشاد ہے: {وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ} [المؤمنون: 100]اس آیت سے بھی معلوم ہوتاہے کہ قیامت سے پہلےاہل برزخ سے دنیا والوں کا (سلام ودعاء اور ایصال ثواب کے علاوہ)  کسی قسم کا کوئی رابطہ ممکن نہیں، کیونکہ برزخ دوچیزوں کے درمیان حائل اور رکاوٹ کو کہاجاتا ہے،لہذا جس طرح اہل برزخ موت کے بعد دنیا میں دوبارہ نہیں آسکتے،اسی طرح اہل دنیا موت سے پہلےاس دنیوی حیات میں عالم برزخ کا  حقیقی مشاہدہ بھی نہیں کرسکتے الا یہ کہ بطور معجزہ یاکرامت ہواور یہ دونوں غیر اختیاری اور وہبی چیزیں ہیں، جبکہ مذکورہ عامل اختیار اور کسب کا مدعی ہے،نیز معجزہ اور کرامت میں بھی وہ مشاہدہ صورت مثالیہ کاہوگا ،نہ کہ حقیقی برزخی صورت اور حالت کا مشاہدہ،(کما صرح بہ العلماء المحققون کما فی روح المعانی فی تفسیرسورۃالاحزاب)جبکہ استفتاء میں مذکورحافظ عامل کے کلام سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ حقیقت کے ادراک کے مدعی ہیں،نیز ان کادعوی ہے کہ اللہ نے ان کے لیے عالم دنیا اور برزخ برابر کیا ہوا ہے جبکہ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ حقیقی برزخ کا اداک اور علم موت کے بعد ہی شروع ہوتا ہے اور بعث تک جاری رہےگا۔استفتاء میں مذکور سؤال نمبر۶،۷،۸اور ۹ کےجوابات اسی تفصیل  بالا سے معلوم ہوجاتےہیں۔

تفسير البغوي - إحياء التراث (3/ 374)

ومن ورائهم برزخ، أي أمامهم وبين أيديهم حاجز، إلى يوم يبعثون، والبرزخ الحاجز بين الشيئين، واختلفوا في معناه هاهنا، قال مجاهد: حجاب بينهم وبين الرجوع إلى الدنيا. وقال قتادة: بقية الدنيا. وقال الضحاك: البرزخ ما بين الموت إلى البعث. وقيل: هو القبر وهم فيه إلى يوم يبعثون.

تفسير النيسابوري = غرائب القرآن ورغائب الفرقان (1/ 209)

ومن ورائهم برزخ إلى يوم يبعثون [المؤمنون: 100] ينادي فلا يجيب، ويستنطق فلا يتكلم، ثم لا يزوره الأقربون بل ينساه الأهل والبنون.

لہذاایسےعامل امام صاحب کے لیے اس قسم کی  خلاف شرع باتوں اور دعووں سے  قطعی اور کلی اجتناب  کی ضرورت ہے اور ایسی باتوں سے اجتناب کی تلقین کے باوجود اگر امام صاحب اجتناب نہ کریں تو ایسے خلاف شرع امام کو کسی طرح سے معزول کردیا جائے۔

باقی پانچ سؤالات(۱تا۵) کے جوابات اس تفصیل پر مبنی ہیں کہ اس عمل کی شرعی حیثیت کیا ہے؟اس عمل کے حکم شرعی کا مدار اس پر ہے کہ آیا اس عمل کے دوران کن کلمات اور اعمال کو اختیار کیا جاتا ہے؟نیز آیا یہ عمل خود مقصود ہے یا کہ شرعا مطلوب کسی مقصد صحیح کے حصول کے لیے بطورذریعہ اختیارکیا جا رہا ہے، لہذااگر عمل مذکور خود مقصود ہو یا اس میں خلاف شرع امورو مفاسدکوبھی اختیار کیا جائے جیساکہ غالب یہی ہے تو ایسی صورت میں یہ عمل بلاشبہ ناجائز ہے اور اگریہ عمل خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی مقصد صحیح کے حصول کے لیے ایک ذریعہ اور واسطہ کےطور پرمثلاروحانی یا جسمانی علاج کےلیے حاصل کیاجائےاورخلاف شرع امور سے یقینی طور پر منزہ اور پاک ہو تو جائز ہے ،لیکن یہ بہت ہی شاذونادرہوگا۔( مزید تفصیل کے لیے امداد الفتاوی: :ج۵،ص۲۹۱ اور فتاوی عثمانی:ج۱،ص۲۸۲ اور فتاوی محمودیہ :ج۲۰،ص۸۰ وغیرہ ملاحظہ ہوں)

لہذاجواز کی صورت میں اس طریقہ علاج  کے مطابق مریضوں کا علاج کرنا اور عامل کے لیےاس پر مناسب اجرت وصول کرنا اور ایسے عامل مولوی کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز ہوگا، ورنہ ناجائز اعمال کے شامل ہونے کی صورت میں  مذکورہ امور میں سے پہلے دو( علاج معالجہ اور اس پر اجرت) تو مطلقاناجائز ہونگےاورایسے امام کی اقتدا میں نماز کا حکم یہ ہے کہ صالح امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا ممکن ومیسر ہو تو ایسے شخص کی اقتداء میں نماز نہ پڑھے، اس لیے کہ ایسے شخص کی اقتداء میں نماز مکروہ تحریمی ہے، البتہ اگر صالح امام میسر نہ ہو تو بامر مجبوری اس کی اقتداء میں نماز پڑھ لی جائے ،ترک جماعت  سے احتراز کیا جائے۔

محض علاج میں قوت وتاثیر ہونا یاکسی دوسرے کو بدعتیوں وغیرہ سے بچانا وغیرہ کسی ناجائزعمل کے لیے سند جواز نہیں بن سکتا۔

حوالہ جات
.......

نواب الدین

 دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۴ربیع الثانی ۱۴۳۹ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب