021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کرائے پر لی ہوئی چیزکو کرائے پر دینا
61490اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے فاسد معاملات کا بیان

سوال

سوال: میں ایک کمپنی کا ملازم ہوں ۔ کمپنی کرائے پرگاڑی لینا چاہتی ہے۔میرا ارادہ ہے کسی اسلامی بینک سے گاڑی لیز پر لے کر کمپنی کو کرائےپر دے دوں ۔کمپنی سے ملنے والا کرائےمیں سے بینک کا کرایہ ادا کرتا رہوں اور جو زیادہ ملے خود رکھوں۔کیا ایسا کرنا میرے لیے شرعی طور پر درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کرائےپر لی ہوئی چیز کو آگے زیادہ کرائے پر دینا شرعاً جائز نہیں۔اگرکوئی ایسا کرے تو جتنی زیادتی ہوگی اسے صدقہ کرنا واجب ہے۔ لہذا آپکا اسلامی بینک سے لیز (Direct Ijarah)پر گاڑی لے کر اپنی کمپنی کو زیادہ کرائے پر دینا جائز نہیں ہو گا۔البتہ شرکہ متناقصہ(Diminishing Musharaka)یا مرابحہ(Murabaha) پر گاڑی لے کر کمپنی کو کسی بھی قیمت پر کرائے پر دینا جائز ہو گا۔
حوالہ جات
(رد المحتار) (6/ 91) ( للمستأجر أن يؤجر المؤجر ) أي ما استأجره بمثل الأجرة الأولى أو بأنقص، فلو بأكثر تصدق بالفضل الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 29) ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين: إذا آجرها بخلاف الجنس أو أصلح فيها شيئا، أي جنس ما استأجر به وكذا إذا آجر مع ما استأجر شيئا من ماله يجوز أن تعقد عليه الإجارة فإنه تطيب له الزيادة كما في الخلاصة. (قوله أو أصلح فيها شيئا) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد من عنده حملا لأمره على الصلاح كما في المبسوط واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب