021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کے جھوٹے اقرار کا حکم۔
61498طلاق کے احکامطلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان

سوال

شوہر پہلے دو طلاقیں دے چکا ہے، مندرجہ ذیل واقعہ میں طلاق کے وقوع یا عدم وقوع کے بارے میں سوال ہے۔ شوہر کا بیان: ایک صبح بیوی کے بچے کو اسکول نہ بھیجنے پر طیش میں آکر شوہر نے بولا[(پہلا جملہ):میں تمہیں طلاق دے دوں گا، میں تمہیں طلاق دے دوں گا، میں تمہیں طلاق دے دوں گا اگر تم نے میری مرضی کے بغیر عبدالہادی کی اسکول سے چھٹی کرائی۔]بیوی کا اطمئنان دیکھ کر مزید غصہ آگیا جس پر شوہر نے بولا[(دوسرا جملہ): میں تم کو مزید برداشت نہیں کر سکتا، تم کو ابھی میکے جانا ہو گا، اگر تم میکے نہیں گئی تو ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں ابھی واضح الفاظ میں طلاق دے بیٹھوں۔] پھر شوہر نے بیوی کے بھائی کو بولا[(تیسرا جملہ):فائزہ حنا کے ساتھ معاملہ کافی خراب ہو گیا ہے، آپ ابھی آکر فائزہ حنا کو اپنے گھر لے جائیں، کیونکہ اب اس گھر کی چھت کے نیچے رہنے کا ان کا کوئی حق نہیں ہے اور شاید فائزہ سے میرا پردہ بھی ہو گیا ہے۔]اس کے بعد والد صاحب کے استفسار پر شوہر نے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے غلط بیانی سے کام لیا اور کہا کہ میں نے یہ جملہ بولا تھا کہ[(چوتھا جملہ): میں طلاق دیتا ہوں، میں طلاق دیتاہوں، میں طلاق دیتا ہوں اگر تم نے میری مرضی کے بغیر عبدالہادی کی اسکول سے چھٹی کرائی۔]والد صاحب کو واقعہ بتاتے وقت بیوی بھی وہاں موجود تھی، اس کو بھیجنے کے لئے شوہر نے بولا[(پانچواں جملہ):آپ یہاں سے جاؤ، آپ کی سمجھ میں کیوں نہیں آرہا کہ معاملہ ختم ہو چکا ہے۔] بیوی کا بیان: بیوی نے الگ سے کوئی بیان نہیں دیا ،البتہ شوہر کے والد کے سامنے یہ اقرار کیا تھا کہ شوہر نے "دیتا ہوں" کی بجائے "دے دوں گا" کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ شوہر کے والد کا بیان: شوہر کے والد نے الگ سے تحریری بیان پیش کیاہے، والد کے کہنے کے مطابق شوہر نے یہ کہا ہے کہ[میں نےتمہیں طلاق دی، میں نےتمہیں طلاق دی، میں نےتمہیں طلاق دی اگر تم نے میری مرضی کے بغیر عبدالہادی کی اسکول سے چھٹی کرائی۔]کیا اس صورتِ حال میں طلاق واقع ہو گئی ہے۔ (تنقیح:پہلی طلاق ڈھائی سال پہلے، اور دوسری طلاق ایک سال پہلے دی تھی، دونوں طلاقیں صریح تھیں۔)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ کا حکم یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد بیوی کو تیسری طلاق بھی واقع ہو چکی ہے، اوراب یہ عورت موجودہ حالت میں سابقہ شوہر (سائل) کے نکاح میں نہیں جا سکتی۔صورتِ مسئولہ میں استعمال کئے گئے ہر ایک جملے کا حکم درج ذیل ہے: [(پہلا جملہ):میں تمہیں طلاق دے دوں گا، میں تمہیں طلاق دے دوں گا، میں تمہیں طلاق دے دوں گا اگر تم نے میری مرضی کے بغیر عبدالہادی کی اسکول سے چھٹی کرائی]،اس صورت کا شرعی حکم یہ ہے کہ "طلاق دےدوں گا"سے نہ ہی فی الوقت کوئی طلاق واقع ہو تی ہے اور نہ ہی مستقبل میں بیوی کے عبدالہادی کو شوہر کی مرضی کے بغیر چھٹی کرانے سے کوئی طلاق واقع ہو گی، بلکہ اس جملے سے کچھ اثر نہ ہو گا جب تک شوہر مستقبل میں صراحۃً یا کنایۃً طلاق نہ دے دے۔ فی تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ( 1/ 38، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ، نقلاً عن الفتاویٰ العثمانی2/254): "صیغۃ المضارع لا یقع بھا الطلاق الااذا غلب فی الحال کما صرح بہ الکمال۔" [(دوسرا جملہ): میں تم کو مزید برداشت نہیں کر سکتا، تم کو ابھی میکے جانا ہو گا، اگر تم میکے نہیں گئی تو ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں ابھی واضح الفاظ میں طلاق دے بیٹھوں]اس جملے کے پہلے حصے (میں تم کو مزید برداشت نہیں کر سکتا، تم کو ابھی میکے جانا ہو گا) میں طلاق کے کنائی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں، کنائی الفاظ سے طلاق کے واقع ہونے یا نہ ہونے کا حکم آخر میں درج ہے، جبکہ آخری حصے(اگر تم میکے نہیں گئی تو ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں ابھی واضح الفاظ میں طلاق دے بیٹھوں) سے کوئی طلاق نہ ہی فی الحال واقع ہوتی ہےاورنہ ہی مستقبل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے سے۔ [(تیسرا جملہ):فائزہ حنا کے ساتھ معاملہ کافی خراب ہو گیا ہے، آپ ابھی آکر فائزہ حنا کو اپنے گھر لے جائیں، کیونکہ اب اس گھر کی چھت کے نیچے رہنے کا ان کا کوئی حق نہیں ہے اور شاید فائزہ سے میرا پردہ بھی ہو گیا ہے]اس جملے میں بھی لفظِ "شاید" کے بعد کے جملے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی کیونکہ اس میں جزم اور یقین نہیں، البتہ شوہر کے یہ الفاظ (آپ ابھی آکر فائزہ حنا کو اپنے گھر لے جائیں، کیونکہ اب اس گھر کی چھت کے نیچے رہنے کا ان کا کوئی حق نہیں ہے) طلاق کے کنائی الفاظ ہیں جن کا حکم آگے آئے گا۔ [(چوتھا جملہ): میں طلاق دیتا ہوں، میں طلاق دیتاہوں، میں طلاق دیتا ہوں اگر تم نے میری مرضی کے بغیر عبدالہادی کی اسکول سے چھٹی کرائی]اس جملے میں شوہر کے بیان کے مطابق اس نے جھوٹ بولتے ہوئے طلاق کا اقرار کیا ہے، پہلے دو جملوں(میں طلاق دیتا ہوں، میں طلاق دیتا ہوں)سے دیانۃً تو طلاق واقع نہیں ہوتی لیکن قضاءً واقع ہو جا تی ہے، اور تیسر ی طلاق قضاءً عبدالہادی کو بلا اجازت چھٹی کرانے پر موقوف ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ طلاق کے جھوٹے اقرار سے صرف دیانۃً طلاق واقع نہیں ہوتی، قضاءً واقع ہو جاتی ہے، البتہ اگر شوہر پہلے کسی کو گواہ بنالے توقضاءً بھی واقع نہیں ہوتی ، لیکن صورتِ مسئولہ میں شوہر نے کسی کو گواہ نہیں بنایا، لہذاشوہر نے جیسے ہی جھوٹ بولتے ہوئے "میں طلاق دیتاہوں" کہا، اسی وقت قضاءً طلاق واقع ہو گئی۔ قضاءً طلاق کے واقع ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ: " مرد تو عورت کے ساتھ (بشرطیکہ وہ یہ دعویٰ کرے کہ اس کی نیت طلاق دینے کی نہیں تھی) رہ سکتا ہے، لیکن عورت نے اگر یہ الفاظ خود سنے ہوں یا اسے کوئی ایک عادل شخص خبر دے دے تو اس عورت کے لئے اس مرد کے ساتھ رہنا بالکل جائز نہیں ہوتا، اسی طرح اگر یہ معاملہ قاضی کے پاس جائے تو وہ بھی اس میں طلاق کے وقوع کا فیصلہ کرتا ہے۔" صورتِ مسئولہ میں اوّل تو شوہر کے اس جھوٹے اقرار کے وقت عورت وہاں موجود تھی، نیز سسر صاحب (جو شوہر کے بیان کے مطابق ایک نیک اور پرہیز گار شخص ہیں) بھی اس بات کی خبر عورت کو دے رہے ہیں، اس لئے اس صورت میں عورت کو قضاءً طلاق واقع ہو چکی ہے اور پہلی دو طلاقوں کے بشمول اب تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔ وفی حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار (2/113): "الاقرار بالطلاق کاذبا یقع بہ قضاءً لا دیانۃً ۔" و فی بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 137، دارالکتب العلمیۃ): "وإن علق بشرط فإن قدم الشرط بأن قال: إن دخلت الدار فأنت طالق طالق طالق، فالأولى يتعلق بالشرط ۔۔۔ والثاني ينزل في الحال۔۔۔۔۔ ويلغو الثالث ۔۔۔الی۔۔۔ وإن أخر الشرط بأن قال: أنت طالق أنت طالق أنت طالق إن دخلت الدار، أو قال: أنت طالق طالق طالق إن دخلت الدار فالأول ينزل في الحال؛ لأنه إيقاع تام صادف محله، ويلغو الثاني والثالث بحصول البينونة بالأولى فلم يصح التعليق لعدم الملك، وإن كانت مدخولا بها يقع الأول والثاني للحال ويتعلق الثالث بالشرط؛ لأن الأول والثاني كل واحد منهما إيقاع تام لكونه مبتدأ وخبرا وقد صادف محله فوقع للحال، والثالث علقه بالشرط فتعلق به لحصول التعليق حال قيام العدة فصادف التعليق محله فصح بخلاف الفصل الأول۔" و فی فتح القدير للكمال ابن الهمام (4/ 73، دارالفکر): "وعلمت أن المرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه من نفسها إذا علمت منه ما ظاهره خلاف مدعاه۔" [(پانچواں جملہ):آپ یہاں سے جاؤ، آپ کی سمجھ میں کیوں نہیں آرہا کہ معاملہ ختم ہو چکا ہے]یہ جملہ بھی طلاق کے کنائی الفاظ پر مشتمل ہے،طلاق کے کنائی الفاظ کا حکم آگے آئے گا۔ [(چھٹا جملہ): میں نےتمہیں طلاق دی، میں نےتمہیں طلاق دی، میں نےتمہیں طلاق دی اگر تم نے میری مرضی کے بغیر عبدالہادی کی اسکول سے چھٹی کرائی]سسر کے بیان کے مطابق یہ جملہ شوہر نے بولا تھا، جبکہ شوہر اس کا منکر ہے، اگر سسر کے ساتھ کوئی ایک مرد یا دو عورتیں بھی اس کی گواہی دیتے تو اس جملے کے بھی پہلے الفاظ(میں نےتمہیں طلاق دی) سے عورت کو تیسری طلاق واقع ہو جاتی، لیکن چونکہ سوال میں درج معلومات کے مطابق سسر اس بیان میں اکیلے ہیں، اس لئے اس جملے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہو گی۔ طلاق کے کنائی الفاظ کا حکم:صورتِ مسئولہ کے دوسرے، تیسرے اور پانچویں جملے میں طلاق کےکنائی الفاظ مذکور ہیں، اور شوہر کی حالت اس کے اپنے بیان کے مطابق غیض و غضب کی تھی، تو اس صورت میں ان کنائی الفاظ سے ایک طلاقِ بائن قضاءًواقع ہو جاتی ہےخواہ شوہر کی طلاق دینے کی نیت نہ ہو۔لہذا ان جملوں کی بنا پر بھی کم از کم قضاءً تو تیسری طلاق واقع ہو چکی ہے۔ و فی الدر المختار(3/ 296): "باب الكنايات (كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب۔۔۔۔۔ و فی شرحہ۔۔۔ (قوله قضاء) قيد به لأنه لا يقع ديانة بدون النية، ولو وجدت دلالة الحال فوقوعه بواحد من النية أو دلالة الحال إنما هو في القضاء فقط كما هو صريح البحر وغيره۔" لہذا پیش آمدہ صورت حال کا شرعی حکم یہ ہے کہ سوال میں مذکور واقعہ کے بعد عورت کو تیسری طلاق واقع ہو چکی ہے اور اب عورت کے لئے اس مرد کے ساتھ رہنا بالکل ناجائز ہے، اور بغیر حلالہ شرعی کے یہ عورت اپنے سابقہ شوہر (یعنی سائل) کے نکاح میں نہیں جا سکتی۔ فی تفسير روح المعاني (1/ 535، دارالکتب العلمیۃ): "والمعنى فإن طلقها بعد الثنتين أو بعد الطلاق الموصوف بما تقدم.فلا تحل له من بعد أي من بعد ذلك التطليق حتى تنكح زوجا غيره أي تتزوج زوجا غيره، ويجامعها فلا يكفي مجرد العقد۔"فقط۔
حوالہ جات
.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمران مجید صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب