021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فتاویٰ عثمانی کے ایک مسئلہ ’’ایک طلاق دو طلاق تین طلاق، الفاظ کا حکم‘‘ پر اشکال (ایقاع طلاق پر دلالت اور نسبت ضروری ہے)اور اس کا حل۔
61539طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

فتاویٰ عثمانی کے ایک فتویٰ (ج2، ص428، عنوان:ایک طلاق دو طلاق تین طلاق، الفاظ کا حکم) کے متعلق شبہ جامعہ دارالعلوم کراچی ارسال کیا تھا، جس کا جواب (فتویٰ نمبر 1863/81) دارالعلوم کی جانب سے موصول ہوا، لیکن جواب سے ہمارا شبہ دفع نہ ہوا اس لئے نسبتاً مفصل تحقیق کی صورت میں ہم نے دوبارہ اپنے تحفظات پیش کئے، جس میں دارالعلوم نے اپنا سابقہ موقف اختیار کرتے ہوئے جواب (فتویٰ نمبر 1884/33) ارسال کیا اور اس میں یہ بھی لکھا کہ : "اگر آنجناب مزید تحقیق فرمانا چاہتے ہیں تو اس بارے میں دیگر دارالافتاء سے رجوع کر کےان حضرات کا موقف معلوم کر لیا جائے، مختلف آراء سامنے آنے کے بعد آپ اور ہمارے لئے فیصلہ آسان ہو گا۔"

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فتاویٰ عثمانی کے مذکورہ جواب پرسائل کے اشکال کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ: "شوہر کے کلام میں "ایقاعِ طلاق" پرصراحۃً، کنایۃً یا اقتضا ءً دلالت کرنے والا لفظ پایا جانا ضروری ہے، اسی طرح "اضافت الی المرأۃ" کے لئے جو اضافتِ معنویہ کو فقہاء کافی کہتے ہیں، وہ بھی کسی لفظ کا مدلول ہوگی، یا کم از کم اضافتِ مطلقہ ضروری ہے الّا فی صورۃ جریان العرف۔" یہ قاعدے سائل نے مختلف جزئیات کو سامنے رکھ کر اخذ کئے ہیں، ہماری معلومات کے مطابق فقہاءِ کرام نے کسی جگہ سائل کی ذکر کردہ تعبیر کے مطابق ان قواعد کو ذکر نہیں کیا، بلکہ سائل نے ان کو جزئیات سے اخذ کیا ہے، لیکن سائل نے ان دونوں قاعدوں کے ذیل میں عرف و عادت، دلالتِ حال اور سیاق و سباق کو وقوع و عدم وقوع طلاق میں اتنا درجہ نہیں دیا جتنا فقہاءِ کرام دیتے ہیں،مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب ؒ نے امداد الاحکام (ج2، ص392) اضافتِ طلاق کے بارے میں سیرِ حاصل بحث تحریر فرمائی ہے، اور حضرت ؒ نے بھی یہ فرمایا کہ : "جزئیہ خانیہ (ار تو زن من سہ طلاق لا تطلق) وغیرہ میں جو عدم وقوع کا قول ہے تو یہ اس وقت ہے جبکہ قرائن سے اضافت الی الزوجہ متعین نہ ہو ۔۔الیٰ۔۔ اور صورتِ مسئولہ(یعنی ایک طلاق دو طلاق تین طلاق) میں قرائن سے اضافتِ طلاق الی الزوجہ متعین ہے ۔۔۔الیٰ۔۔ پس صورتِ مسئولہ میں قضاءً بھی طلاق واقع ہو چکی ہے اور دلالۃً بھی۔" لہذاسائل کے اشکال کا حل یہ ہے کہ طلاق کے باب میں خواہ وہ "ایقاعِ طلاق" ہو یا "نسبت الی المرأۃ"، فقہاءِ کرامؒ نے لغتِ متکلم،دلالتِ حال، مذاکرہ اور خاص طور پر عرف اور عادت کو بنیاد بنا کر وقوع یا عدمِ وقوعِ طلاق کا فیصلہ فرمایا ہے، مثلاً لفظِ "حرام" طلاق کے صریح الفاظ میں سے نہیں ، لیکن عرف کی بنا پر الفاظ صریح کی طرح اس سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے: فی رد المحتار(ج 3 / ص 273، المکتبہ الشاملۃ): "وسيذكر قريبا أن من الالفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام، فيقع بلانية للعرف الخ، فأوقعوا به الطلاق مع أنه ليس فيه إضافة الطلاق إليها صريحا، فهذا مؤيد لما في القنية، وظاهره أنه لا يصدق في أنه لم يرد امرأته للعرف، والله أعلم۔" وفی رد المحتار (ج 3 / ص 273 ، المکتبہ الشاملۃ): "ويؤيده ما في البحر قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن امرأتي يصدق اه.ويفهم منه أنه لو يقل ذلك تطلق امرأته، لان العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها۔" اسی طرح بزازیہ کے درج ذیل جزئیہ میں بھی الفاظ میں ایقاع نہیں لیکن مذاکرہ طلاق اور حالتِ غضب میں وقوعِ طلاق کا قول اختیار کیا گیا ہے۔ و فی البزازیۃ(ج1/ص158، قدیمی کتب خانہ): " تراسه ذكر الصدر أنه لا يقع لأنه لا إضمار في الفارسية والمختار الوقوع إذا نوى وقد ذكرنا عن صاحب المنظومة جريان الإضمار في الفارسية ولفظه يحتمل الطلاق وغيره فإذا نوى تعين وفي موضع آخر قال الصدر يقع وقال أبو القاسم لا وقال غيره إن في المذاكرة أو الغضب يقع وإلا لا۔" لہذا ہماری رائے بھی یہی ہے کہ فتاویٰ عثمانی کے مذکورہ مسئلے میں شوہر کے کلام کی ترکیب اوردلالتِ حال ایقاع اور نسبت الی المرأۃ کے لئے کافی ہیں،نیز اکابر کے بیشمار فتاویٰ اسی رائے کے موافق ہیں۔ (ملاحظہ ہو:فتاویٰ دارالعلوم دیوبند9/175، 9/190، 9/196، 9/202، کفایت المفتی 6/58، فتاویٰ رحیمیہ 8/295، امداد الاحکام 2/602، خیر الفتاویٰ 5/215) تاہم وہ جزئیات جن کی بنیاد پر سائل کو اشکال ہوا ہے، تو اس بارے میں : اول تو یہ ذہن میں رہے کہ کلامِ فقہاء اکثر عربی میں ہے، جبکہ ہمارا عرف اردو ترکیب سے وابستہ ہے، اس لئے اردومحاورے کا اعتبار کیا جائے گا، اور اردو محاورے میں "ایک طلاق، دو طلاق، تین طلاق" جبکہ بیوی ہی کا ذکر مجلس میں جاری ہو اور اس کی فحش حرکات کا ذکر کر کے شوہر کو غصہ دلایا جا رہا ہو تو یہ دلالتِ حال اس کی متقاضی ہے کہ شوہر کے کلام کی نسبت اس کی بیوی کی طرف ہی کی جائے اور اردو محاورے کی بنا پر اس کلام میں ایقاع بھی ہے۔ جبکہ "میں تجھے طلاق۔۔۔" میں اگرچہ "ایک طلاق" کی نسبت زیادہ الفاظ ہیں لیکن اردو محاورے میں اس کلام کو ایسا کلام نہیں سمجھا جاتا جس میں ایقاع کو تسلیم کیا جا سکے (کما فی فتویٰ دارالعلوم)۔ دوم یہ کہ جن جزئیات سے سائل نے استدلال کیا ہے ان میں سائل کے مدعیٰ پر استفتاء ثانی (ص:1)میں المحیط البرھانی کی عبارت(یبقی قولہ بتطلیقۃ: و انہ غیر مفید فی الایقاع) اور (ص:2) التاتارخانیہ کا جزئیہ (یک طلاق، و دو طلاق، و سہ طلاق) صراحۃً دلالت کرتے ہیں، لیکن ان کا جواب یہ ہے کہ یہ جملے ان مصنفین ؒ کے دور میں عرفاً اورمحاورۃً "ایقاعِ طلاق" اور "اضافت الی الزوجہ" کے لئے مکمل شمار نہیں کئے جاتے ہوں گے،جیسا کہ علامہ شامی ؒ نے بھی "مفتی الروم ابوسعود آفندیؒ" کےایک فتویٰ کی توجیہ ان کے زمانے میں عدمِ عرف سے کی ہے: و فی رد المحتار(ج 11 / ص 16، المکتبۃ الشاملۃ): "وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت ، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية ، ولا ينافي ذلك ما يأتي من أنه لو قال : طلاقك علي لم يقع لأن ذاك عند عدم غلبة العرف ۔وعلى هذا يحمل ما أفتى به العلامة أبو السعود أفندي مفتي الروم ، ومن أن علي الطلاق أو يلزمني الطلاق ليس بصريح ولا كناية : أي لأنه لم يتعارف في زمنه . ولذا قال المصنف في منحه : أنه في ديارنا صار العرف فاشيا في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره فيجب الإفتاء به من غير نية ، كما هو الحكم في الحرام يلزمني وعلي الحرام ، وممن صرح بوقوع الطلاق به للتعارف الشيخ قاسم في تصحيحه ، وإفتاء أبي السعود مبني على عدم استعماله في ديارهم في الطلاق أصلا كما لا يخفى۔" نیز التاتارخانیہ کے جزئیہ میں (و ھو یزعم انہ لم یرد بہ الطلاق)بھی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ مراد لے تو طلاق ہو جائے گی، حالانکہ کلام تو وہی ہے جس میں ایقاعِ طلاق پر دلالت کرنے والا لفظ نہیں۔فقط
حوالہ جات
۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمران مجید صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب