021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
صلح کے لئے نابالغ لڑکی نکاح میں دینے کا حکم
61653نکاح کا بیانولی اور کفاء ت ) برابری (کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک لڑکی کے بھائی کا کسی عورت کے ساتھ ناجائز تعلق قائم ہونے کی بنا پر جھگڑا قائم ہوا ،فائرنگ بھی ہوئی ، پنچائیت کے لوگوں نے لڑکی کے باپ کو مجبور کیا توباپ نے صلح کےعوض اپنی نابالغ لڑکی کا نکاح کرایا ہے،لڑکی آثار بلوغ ظاہر ہونے سے لیکر اب تک اس نکاح سے انکاری ہے ،یہ فیصلہ معروف اور مشہور ہے ۔ سوال یہ ہے کہ صلح کے عوض میں جونابالغ لڑکی کا نکاح کروایا یہ منعقد ہوا ہے یا باپ کے سوء الاختیا ر ہونے کی وجہ سے نکاح منعقد نہیں ہوا ؟ تنقیح ١۔دونوں لڑکا لڑکی کی عمروں میں کیا تفاوت ہے ؟ ۲۔ کیا لڑکی کے والد نے اس نکاح کے عوض میں فریق ثانی سے مال وصول کیا ہے ؟ ۳۔ اس واقعہ کے بعد لڑکی یا اس کے خاندان پر فریق ثانی نے کوئی ظلم زیادتی کی ہے؟ ۴۔کیا دونوں خاندانی اعتبار سے ایک دوسرے کے ہم پلہ ہیں ؟ جواب ١۔دس سال کا تفاوت ہے ۔ ۲۔ لڑکی دینے کے عوض میں مال تو نہیں لیا لیکن لڑکی کے بھائی کی وجہ سے والد کو کیس کا سامنا کرنا تھا اس سے بچ گیا ۳۔نہیں ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی اور کوئی ظلم بھی نہیں کیا ،لیکن خطرہ ہے لڑکی کے مستقبل میں خیر خواہی نہ ہو۔ ۴۔ دونوں پٹھان ہیں گاؤں الگ الگ ہیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صلح کے عوض میں لڑکی دینا جائز نہیں ہے،کیونکہ بعض دفعہ اس میں لڑکی کے ساتھ بہت ناانصافی ہوتی ہے ، لڑکا لڑکی کی عمروں میں تفاوت کی وجہ سے آپس کی زندگی تلخ ہوجاتی ہے اورگذارا مشکل ہوجاتا ہے ،اس کے علاوہ بھی مفاسد ہوتے ہیں ، اس لئے اس رواج کو ختم کرناچائیے۔ نکاح کاحکم یہ ہے کہ اگر صلح کے عوض میں لڑکی دینے میں باپ کا سوء الاختیار ثابت ہوجائے تو نکاح منعقد نہیں ہوتا بلکہ باطل ہوتاہے ،سیءالاختیار ہونے کی وضاحت یہ ہےکہ باپ نے طمع زر یا حماقت کی وجہ سے اپنے مفاد کو لڑکی کے مفاد پر ترجیح دی ہواورنکاح میں یقینی طور پر آیندہ زندگی میں لڑکی کے مفاد کو پیش نظرنہ رکھاگیا ہو ۔ فقہاءکرام نے اس کی چند علامتیں ذکر کی ہیں ١۔ دونوں کی عمروں میں بہت تفاوت ہو ایک بچی ہے اورشوہر بوڑھا ہے ۲۔شوہر کوڑھ کامریض ہے ۔ ۳۔ غیر کفء میں نکاح کرادے ۴۔ مہر میں غبن فاحش ہو،وغیرہ ذلک لیکن صورت مسئولہ میں نکاح صغیرہ میں باپ کا سوءالاختیار ہونا واضح نہیں ہے ، کیونکہ باپ بیوقوف اور پاگل نہیں ہے ، لڑکے،لڑکی کے عمروں میں زیادہ تفاوت نہیں ہے ، باپ نے عوض میں مال بھی نہیں لیا ہے، نیز دونوں ایک دوسرے کے ہم پلہ بھی ہیں ۔ اس لئے شرعا باپ کیا ہوا یہ نکاح منعقد ہوگیا ہے لڑکی کو خیار بلوغ حاصل نہ ہوگا ، البتہ شوہر کے ذمہ لازم ہےکہ لڑکی کو مہر مثل اداکرے ، اور نان ونفقہ کا انتظام کرکےاپنا گھر آباد کرلے۔
حوالہ جات
وفی الھندیہ قال ؛ والخلاف فیما اذالم یعرف سوء الاختیار الاب مجانة وفسقا امااذا عرف ذلک منہ فالنکاح باطل اجما﴿عا عالمگریہ ج١ص ۲۹۴ ﴾وقال ابن عابدین تحت قولہ ﴿اومجانة او فسقا ﴾ وفی شرح المجموع حتی لوعرف من الاب سوء الاختیار لسفھہ اولطمعہ لایجوز عقدہ اجماعا ۔﴿رد المحتار ج۲ص۳۳۰﴾ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 54) وبه ظهر أن الفاسق المتهتك وهو بمعنى سيئ الاختيار لا تسقط ولايته مطلقا لأنه لو زوج من كفء بمهر المثل صح كما سيأتي بيانه، وقال الرافعی لم یظھر مماسبق ان الفاسق المتھتک ھو بمعنی سئی الاختیا ر ولایلزم من وجود احدھما وجود الاخر کما ھو ظاہر نعم قد یتحقق معناھما فی شخص واحد فعلی ھذا اذا کان الولی متھتکا او سئی الاختیا ر لایصح تزویجہ بنقص عن مہر المثل او من غیر کفء ﴿التحریر المختار ص ١۸۴/ج١﴾ المجموع شرح المهذب (16/ 198) قال الصيمري: ولا يزوج ابنه الصغير بعجوز هرمة ولا بمقطوعة اليدين والرجلين ولا عمياء ولا زمنة ولا يهودية ولا نصرانية، ولایزوج ابنتہالصغیرة بشیخ ھرم ولا بمقطوع اليدين والرجلين، ولا بأعمى ولا زمن ولا بفقير وهى غنية، فإن فعل ذلك فسخ. وعندي أنها تحتمل وجها آخر أنه لا يكون له الفسخ لانه لیس بأعظم ممن زوج ابنته الصغيرة بمجذوم أو أبرص
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب