021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالت سے خلع وتنسیخ نکاح کا حکم
61645طلاق کے احکاموہ اسباب جن کی وجہ سے نکاح فسخ کروانا جائز ہے

سوال

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں: آج کل دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سی عورتیں عدالت سے تنسیخ نکاح کرالیتی ہیں اور دوسری جگہ نکاح کرالیتی ہیں، کیا یہ درست ہے؟ کیا بلاوجہ اور بغیر عذر کے عدالت سے تنسیخ کرانا اور عدالت کا شوہر کی موجودگی کے بغیر تنسیخ نکاح کرنا جائز ہے؟ وضاحت فرمائیں نیز کونسی ایسی صورتیں جس میں مروجہ عدالتی تنسیخ نکاح جائز ہوگا۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ محمد نعیم ولد عبد الرؤوف

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت نے بنیادی طور پر طلاق کا اختیار مرد کو دیا ہے۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "الطلاق بالرجال" یعنی طلاق مردوں کا حق ہے۔ چنانچہ اگر کوئی عورت کسی عذر شرعی کے بغیر عدالت میں جا کر تنسیخ نکاح کرانا چاہے اور قاضی اس کے حق میں فیصلہ کردے، تو شرعی اعتبار سے یہ فیصلہ معتبر نہیں ہوگا۔ ہاں! اگر کسی بینہ سے ثابت کردہ عذر شرعی کی بناء پر قاضی تنسیخ نکاح کا فیصلہ کرے تو وہ شرعاً معتبر ہوگا۔ وہ وجوہات جن کی بناء پر فیصلہ معتبر سمجھا جائے گا درج ذیل ہیں: 1- خاوند عورت کے حقوق ادا نہ کرتا ہو، نفقہ نہ دیتا ہو۔ 2- خاوند نامرد ہو۔ 3- خاوند لاپتہ ہو۔ 4- خاوند پاگل ہو۔ ان تمام صورتوں میں فسخ نکاح کے لیے اپنی اپنی شرائط ہیں، اگر ان شرائط کی پاسداری کرتے ہوئے فسخ نکاح کا فیصلہ کر دیا جائے تو وہ شرعاً نافذ ہوگا ورنہ نہیں۔ یاد رہے کہ آج کل فسخ نکاح کی شرائط کے حصول میں مشکلات کی بناء پر عدالت اپنی ڈگری میں خلع کا لفظ استعمال کرتی ہے۔ ان صورتوں میں بھی عدالت کا فیصلہ فسخ نکاح ہی شمار ہوگا بشرطیکہ شرعی اصولوں کی پابندی ملحوظ رکھی جائے۔ مثال کے طور پر بعض دفعہ خاوند کو اطلاع دیے بغیر عورت کے حق میں فیصلہ کر دیا جاتا ہے، یہ فیصلہ فقط اس صورت میں معتبر ہوگا جبکہ تمام شرعی شرائط کی پاسداری کرتے ہوئے عدالت فیصلہ کرے، یعنی عورت کا دعوی دو گواہوں سے ثابت ہوا ہو اور خاوند کو موزوں اطلاع دینے کے باوجود وہ حاضر نہ ہوا ہو وغیرہ ۔ جن صورتوں میں فسخ نکاح یا خلع کا فیصلہ غیر شرعی طور پر ثابت ہوا ہو، وہاں فیصلہ کالعدم سمجھا جائے گا اور عورت کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہ ہوگا ۔
حوالہ جات
قال العلامة الحصکفی فی الدر المختار: "ويجوز تقلد القضاء من السلطان العادل والجائر، ولو كافرا، ذكره مسكين وغيره." (الدر المختار مع رد المحتار،٢/٢٦١، ایچ ایم سعید) قال العلامۃ البابرتی: "ولا ولاية لكافر على مسلم يعني الولاية الشرعية" (تبیین الحقائق: 4/433) ذکر فی الفتاوی الھندیۃ: " إذا رفعت المرأة زوجها إلى القاضي وادعت أنه عنين وطلبت الفرقة، فإن القاضي يسأله: هل وصل إليها أو لم يصل؟ فإن أقر ... إن اختارت الفرقة، أمر القاضي أن يطلقها طلقة بائنة، فإن أبى فرق بينهما، هكذا ذكر محمد رحمه الله تعالى في الأصل، كذا في التبيين. والفرقة تطليقة بائنة، كذا في الكافي ... لو وجدت المرأة زوجها مجبوبا خيرها القاضي للحال ولا يؤجل، كذا في فتاوى قاضي خان." (1/522 ،524، 525، مکتبۃ رشیدیۃ) ذکر فی الفتاوی الھندیۃ: " وإذا كان بالزوج جنون أو برص أو جذام فلا خيار لها، كذا في الكافي. قال محمد رحمه الله تعالى إن كان الجنون حادثا يؤجله سنة كالعنة، ثم يخير المرأة بعد الحول إذا لم يبرأ. وإن كان مطبقا فهو كالجب. وبه نأخذ، كذا في الحاوي القدسي." (1/526، مکتبۃ رشیدیۃ) قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی فی الدر المختار: "." (رد المحتار،٢/٢٦١، ایچ ایم سعید)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب