021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میاں بیوی کے درمیان عددِ طلاق میں اختلاف
61654طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

شوہر کا بیان: آج سے ڈیڑھ سال پہلے بیوی سے جھگڑے کے دوران میں نے اسے کہا کہ "میں تجھے طلاق دوں گا"، یہ تین دفعہ کہا۔ اس واقعہ کے بعد آج سے تقریباً 10 دن پہلے بیوی سے پھر جھگڑا ہوا اور میں نے اسے یہ الفاظ کہے کہ "میں تجھے طلاق دیتا ہوں"۔ بیوی کا بیان: عورت کا بیان یہ ہے کہ میرے شوہر نے مجھے دو طلاقیں اس طرح دیں کہ اس نے مجھے کہا "میں نے آپ کو دو طلاق دیں"، پھر بعد میں ہم دونوں میاں بیوی کی طرح رہنے لگیں۔ اور آج سے تقریباً 10 دن پہلے جھگڑے کے دوران شوہر نے مجھے پھر ایک طلاق ان الفاظ سے دی کہ "میں نے تجھے طلاق دی"۔ موجودہ صورتِ حال میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ کیا واقعتاً اس عورت پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مفتی غیب نہیں جانتا،وہ سوال کےمطابق جواب دیتاہے۔سوال کےسچ یاجھوٹ ہونے کی ذمہ داری سائل پرہوتی ہے، اورواقعہ کی تحقیق کرنامفتی کی ذمہ داری نہیں ہے۔اگرسائل غلط بیانی کےذریعہ کوئی فتویٰ حاصل کریگاتواس کاوبال اسی پرہوگا۔ اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان طلاق کے معاملے میں اختلاف کی صورت میں دیانت اور قضاء کا حکم علیحدہ علیحدہ ہے، قضاءً مرد کا قول اور دیانتاً عورت کا قول معتبر ہوتا ہے، قضاءً کا مطلب یہ ہے کہ ایسی صورت میں اگر معاملہ عدالت میں پہنچ جائے اور عورت کے پاس اپنے دعوی پر دوگواہ نہ ہوں تو قاضی مرد سے قسم لے کر اس کے حق میں فیصلہ کر دے گا اور اس صورت میں خاوند اگر جھوٹا ہوا تو اس کا گناہ اسی پر ہو گا اور شرعاً یعنی "فیما بینہ وبین اللہ" عورت اس کے لیے حلال نہیں ہو گی۔ دیانتاً کا مطلب یہ ہے کہ اگر عورت کو طلاق کا پکا یقین ہو تو وہ اپنی ذات کے حق میں اسی پر عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے اور اس کے لیے خاوند کو اپنے اوپر (صحبت وغیرہ کے لیے)قدرت دینا جائز نہیں ہوتا۔کیونکہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے یہ اصول بیان فرمایا ہے:"المرٲة کالقاضی" یعنی جس طرح قاضی ظاہری صورتِ حال (مدعی گواہ پیش کردے یا گواہ نہ ہونے کی صورت میں مدعیٰ علیہ قسم کھالے) کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند ہوتا ہے، اسی طرح عورت پربھی خاوند کے ظاہری الفاظ کے مطابق عمل کرنا لازم ہوتا ہے۔ صورتِ مسئولہ میں آج سے تقریباً 10 دن پہلے ایک طلاق دینے پر تو میاں بیوی متفق ہیں، اس لیے ایک طلاق تو بلاشبہ واقع ہوگئی ہے۔ البتہ اس طلاق سے پہلے شوہر کوئی طلاق دینے سے منکر ہے، جبکہ بیوی کا دعویٰ یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی اس نے مجھے ان الفاظ "میں نے آپ کو دو طلاقیں دیں" سے دو طلاقیں دی ہیں۔ اگر شوہر کی بات درست ہو اور اس نے واقعۃً اس ایک طلاق سے پہلے کوئی طلاق نہیں دی ہے تو اب وہ عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے رجوع کرسکتا ہے، اور عورت کے لیے غلط بیانی کرنا جائز نہیں۔ لیکن اگر بیوی کو کسی شک وشبہ کے بغیر مکمل یقین ہے کہ شوہر نے اسے اس ایک طلاق سے پہلے ان الفاظ "میں نے آپ کو دو طلاقیں دیں" سے دو طلاقیں دی تھیں تو پھر اس کے لیے حکم یہ ہے کہ اس پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، لہٰذا اب اس سے دور رہے، اور اپنے اوپر اسے بالکل قدرت نہ دے۔
حوالہ جات
تبيين الحقائق (2/ 218): قال: "أنت طالق طالق طالق" وقال: إنما أردت به التكرار صدق ديانةً لا قضاءً؛ فإن القاضي مأمور باتباع الظاهر والله يتولى السرائر، والمرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا سمعت منه ذلك أو علمت به لأنها لا تعلم إلا الظاهر. البحر الرائق (3/ 276): ويدين في الوثاق والقيد ويقع قضاءً إلا أن یكون مكرهاً ، والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه، هكذا اقتصر الشارحون ، وذكر في البزازية: وذكر الأوزجندي أنها ترفع الأمر إلى القاضي فإن لم يكن لها بينة يحلفه فإن حلف فالإثم عليه ا هـ ولا فرق في البائن بين الواحدة والثلاث ا هـ البحر الرائق (4/ 62): قالوا لو طلقها ثلاثا وأنكر لها أن تتزوج بآخر وتحلل نفسها سراً منه إذا غاب في سفر فإذا رجع التمست منه تجديد النكاح لشك خالج قلبها لا لإنكار الزوج النكاح، وقد ذكر في القنية خلافاً فرقم للأصل بأنها إن قدرت على الهروب منه لم يسعها أن تعتد وتتزوج بآخر؛ لأنها في حكم زوجية الأول قبل القضاء بالفرقة، ثم رمز شمس الأئمة الأوزجندي وقال: قالوا هذا في القضاء ولها ذلك ديانةً، وكذلك إن سمعته طلقها ثلاثاً ثم جحد وحلف أنه لم يفعل وردها القاضي عليه لم يسعها المقام معه ولم يسعها أن تتزوج بغيره أيضاً. قال يعني البديع: والحاصل أنه على جواب شمس الإسلام الأوزجندي ونجم الدين النسفي والسيد أبي شجاع وأبي حامد والسرخسي يحل لها أن تتزوج بزوج آخر فيما بينها وبين الله تعالى وعلى جواب الباقين لا يحل، انتهى.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب