021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین دفعہ آزاد“کہنے سے طلاق کا حکم’’
61699/57طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بیوی صبح سے شام تک یہ اصرار کرتی رہی کہ میں نے جانا ہے۔شوہر نے پوچھا کہ آپ کو کیا مسئلہ مسائل ہیں اور کیا پریشانی ہے؟تو بیوی نے کہا کہ نہیں میں نے جانا ہے اور سامان یعنی کپڑے وغیرہ بھی ساتھ لے لیے اور شوہر سے کہا کہ اگر تم مجھے والدین کے گھر چھوڑتے ہو تو چھوڑ آؤ! ورنہ میں جاتی ہوں۔شوہر نے کہا:”تم میری طرف سے تین دفعہ آزاد ہو،جب چاہو واپس آ جانا“،اور دل میں بالکل طلاق وغیرہ کا ارادہ نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان الفاظ سے طلاق واقع ہو گئی کہ نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل درست ہے تو طلاق واقع نہیں ہوئی،کیونکہ شوہر طلاق کے ارادے کی نفی کر رہا ہے اور قرائن سے بھی بظاہر اس کی تائید ہوتی ہے کہ شوہر کا ارادہ طلاق کا نہیں تھا ۔
حوالہ جات
فی الھندیۃ: ولو قال: اعتدي ثلاثا، وقال: نويت ب " اعتدي " طلاقا، ونويت بثلاث ثلاث حيض، فهو كما قال في القضاء .. . رجل قال لامرأته: اعتدي اعتدي اعتدي ،وقال: نويت بالكل تطليقة واحدة, دين فيما بينه وبين الله تعالى .وفي القضاء تطلق ثلاثا. كذا في فتاوى قاضي خان . .. وفي المنتقى: لو قال لها :”اذهبي ألف مرة“ ونوى الطلاق يقع الثلاث . (الفتاوى الهندية :8/ 331،345) قال ابن نجیمؒ: قوله: ”سرحتك ،فارقتك“وجعلهما الشافعي من الصريح ؛لورودهما في القرآن للطلاق كثيرا. قلنا: المعتبر تعارفهما في العرف العام في الطلاق ؛لاستعمالهما شرعا مرادا هو بهما .كذا في فتح القدير، وفي الكافي . (البحر الرائق شرح كنز الدقائق :3/325) قال الحصکفی رحمہ اللہ:”ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري ،أمرك بيدك ،سرحتك، فارقتك لا يحتمل السب والرد، ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال .( وقال ابن عابدین رحمہ اللہ:ثم فرق بينه وبين” سرحتك“ فإن ”سرحتك “كناية، لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح، فإذا قال " رهاكردم " أي” سرحتك “يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا ؛لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق، وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت ، لكن لما غلب استعمال ”حلال الله“ في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ،ولولا ذلك لوقع به الرجعي. “ ( الدر المختارمع ردالمختار:516-522،مکتبہ دارالمعرفۃ،بیروت)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / شہبازعلی صاحب