021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ذاتی بجلی کے عوض مسجد کی بجلی کا استعمال
71150وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

ہماری مسجد میں ایک بجلی کا کنکش اس طرح کرایا گیا ہے کہ مسجد کی بجلی جانے کی صورت میں ایک گھر سے(جو کہ مسجد کا نہیں بلکہ کسی کاذاتی ہے)بجلی لے لی جاتی ہے، جبکہ دوسری طرف اگر اس گھر میں بجلی جائے تو وہ مسجد کی بجلی لے لیتے ہیں یعنی دو طرفہ استعمال ہورہا ہے۔

 اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس گھر والوں کو مسجد کی بجلی کا استعمال کرنا جائز ہے؟ اگر نہیں تو کیا صورت اپنائی جائے ؟ کنکشن ختم کردیں یا دو طرفہ میٹر لگادیں؟

نوٹ: یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ظاہر میں تو مسجد والے ہی زیادہ استعمال کرتے ہوں گے ،کیونکہ مسجد میں پنکھے وغیرہ زیادہ ہوتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ذاتی مکان کے لیےمسجد کے میٹر سے کنکشن دینا جائز نہیں۔(احسن الفتاوی:ج۶،ص۴۴۶)البتہ اگرمسجد کے میٹر کا مکمل بل کوئی شخص خود اپنے طور پر دینا ذمہ لے لے تو اس صورت میں اس شخص کی طرف سےذاتی مکان میں دینا جائز ہوگا۔(خیر الفتاوی:ج۲،ص۷۵۱ وفتاوی مفتی محمود :ج۱ص۷۹۵) اسی طرح اگرمسجد کے میٹر کےعلاوہ دوسرا میٹر لگاکر اس سے کنکشن دیا جائے اور اس کا بل مسجد کے عمومی چندے سے یا خاص اس مد میں جمع چندے سے ادا کیا جائے تویہ بھی جائزہے۔اس لیے کہ مسجد کاعمومی چندہ مسجد کے مصالح و سہولیات کے لیے خرچ کرناجائز ہے۔البتہ مسجد کا خصوصی چندہ  بلاضرورت اس میں صرف کرنا جائز نہیں۔

حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 270)
وفي الإسعاف وليس لمتولي المسجد أن يحمل سراج المسجد إلى بيته
الفتاوى الهندية (2/ 462)
متولي المسجد ليس له أن يحمل سراج المسجد إلى بيته وله أن يحمله من البيت إلى المسجد، كذا في فتاوى قاضي خان.
الفتاوى الهندية (1/ 110)
ولا يحمل الرجل سراج المسجد إلى بيته ويحمل من بيته إلى المسجد.
الفتاوى البزازية (1/ 39)
لا يحمل سراج المسجد إلى البيت ويحمله من البيت إلى المسجد
الفتاوى الهندية (2/ 461)
مسجد له مستغلات وأوقاف أراد المتولي أن يشتري من غلة الوقف للمسجد دهنا أو حصيرا أو حشيشا أو آجرا أو جصا لفرش المسجد أو حصى قالوا: إن وسع الواقف ذلك للقيم وقال: تفعل ما ترى من مصلحةالمسجد كان له أن يشتري للمسجد ما شاء وإن لم يوسع ولكنه وقف لبناء المسجد وعمارة المسجد ليس للقيم أن يشتري ما ذكرنا وإن لم يعرف شرط الواقف في ذلك ينظر هذا القيم إلى من كان قبله، فإن كانوا يشترون من أوقاف المسجد الدهن والحصير والحشيش والآجر وما ذكرنا كان للقيم أن يفعل وإلا فلا، كذا في فتاوى قاضي خان.
الفتاوى الهندية (2/ 462)
وفي الفتاوى الصغرى المتولي إذا أنفق على قناديل المسجد من وقف المسجد جاز، كذا في الخلاصة.
الفتاوى الهندية (2/ 462)
مسجد بجنبه فارقين يضر بحائط المسجد ضررا بينا، فأراد القيم وأهل المسجد أن يتخذ من مال المسجد حصنا بجنب حائط المسجد ليمنع الضرر عن المسجد قالوا: إن كان الوقف على مصالح المسجد جاز للقيم ذلك؛ لأن هذا من مصالح المسجد وإن كان الوقف على عمارة المسجد لا يجوز؛ لأن هذا ليس من عمارة المسجد، كذا في فتاوى قاضي خان
والأصح ما قال الإمام ظهير الدين: إن الوقف على عمارة المسجد وعلى مصالح المسجد سواء، كذا في فتح القدير.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۳جمادی الثانیۃ ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب