021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جنرل سٹور(دکان ) اور لاٹری میں دی ہوئی رقم کی زکوٰۃ کا حکم
61703/57زکوة کابیانسامان تجارت پر زکوۃ واجب ہونے کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کے پاس نصاب کی بقدر رقم نہیں تھی،پھر اس کے پاس ایک لاکھ روپے آئے تو اس نے ایک جنرل سٹور کھول لیا ہے اور وہ اس کی آمدنی سے ایک لاکھ والی لاٹری بھی بھر رہا ہے اور اب تک تیس ہزار روپے لاٹری میں بھر چکا ہے،اور ابھی تک سٹور اور لاٹری کو شروع کیے ہوئے سال مکمل نہیں ہوا۔اب سوال یہ ہے کہ اس شخص کے لیے زکوۃ کا کیا حکم ہے؟ جوابِ تنقیح:مستفتی سے لاٹری سے متعلق پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ ایک پرائیویٹ کمپنی ہے، جس میں چند لوگ ماہانہ ایک متعین رقم جمع کرتے ہیں۔پھر قرعہ اندازی ہوتی ہے،جس کا نام آجائے تو اس کو حج یا عمرے کا ٹکٹ دیا جاتا ہے یا اور کچھ دیا جاتا ہے۔جس کا نام آ جائے تو پھر وہ رقم جمع نہیں کرتا۔غرض جو رقم جمع کروائی جاتی ہے ،اگر قرعہ اندازی میں نام نہ آیا تو نہ اصل رقم واپس ملتی ہے اور نہ اضافی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب سے اس شخص کے پاس ایک لاکھ روپے آئے اور اس نے ان سے سٹور کھولا تو وہ صاحبِ نصاب بن گیا ہے۔اب ایک سال پورا ہونے کے بعد اگراس کے پاس نصاب کے بقدر رقم یا تجارتی سامان موجود ہو تو اس پر زکوۃ دینا لازم ہے،لہذا تجارتی سامان کی قیمت لگا کر کل قیمت کا چالیسواں حصہ زکوۃ میں دینا ہوگا۔ جو صورت لاٹری کی بیان کی گئی ہے وہ جوا اور قمار کی ایک صورت ہے،جو کہ”تملیک المال علی الخطر“اور غرر کی علت کی وجہ سے ناجائز ہے ۔ سائل کے کہنے کے مطابق اِس میں دی جانے والی رقم کے واپس ملنے کے امکانات بہت کم ہیں،جس کی وجہ سے یہ رقم مالِ ضمار(جس کے ملنے کی امید نہ ہو)کے ساتھ ملحق ہو جاتی ہے اور مالِ ضمار کی طرح اِس پر بھی فی الحال زکوۃ لازم نہیں الا یہ کہ بعد میں واپس مل جائے تو پھر دین قوی سے مشابہت کی وجہ سے احتیاطاً گزشتہ سالوں کی زکوۃ بھی دینا ہو گی،یعنی اصل رقم کی زکوۃ ، اضافی رقم بلا نیتِ ثواب واجب التصدق ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ:وشرط أن يكون النصاب ناميا…وفي الشرع هو نوعان :حقيقي وتقديري،فالحقيقي الزيادة بالتوالد والتناسل والتجارات، والتقديري تمكنه من الزيادة بكون المال في يده أو في يد نائبه،فلا زكاة على من لم يتمكن منها في ماله،كمال الضمار، وهو في اللغة الغائب الذي لا يرجى فإذا رجي فليس بضمار،وفي الشرع كل مال غير مقدور الانتفاع به مع قيام أصل الملك...لو كان على مقر ملي أو معسر تجب الزكاة ؛لإمكان الوصول إليه ابتداء أو بواسطة التحصيل…قسم أبو حنيفة الدين على ثلاثة أقسام: قوي، وهو بدل القرض، ومال التجارة…ففي القوي تجب الزكاة إذا حال الحول، ويتراخى القضاء إلى أن يقبض أربعين درهما ففيها درهم، وكذا فيما زاد بحسابه. (البحر الرائق:2/ 222) فی الدرالمختار: (وشرطه) أي: شرط افتراض أدائها (حولان الحول)، وهو في ملكه (وثمنية المال،كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة ،فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ،ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض، إما صريحا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة ، أو دلالة بأن يشتري عينا بعرض التجارة. وقال الشامیؒ:قوله:(وهو في ملكه) أي:والحال أن نصاب المال في ملكه التام كما مر، والشرط تمام النصاب في طرفي الحول. (الدر المختار مع رد المحتار) (2/ 267) وفی أحکام القرآن: وقال قوم من أهل العلم: القمار كله من الميسر ،وأصله من تيسير أمر الجزور بالاجتماع على القمار فيه، وهو السهام التي يجيلونها، فمن خرج سهمه استحق منه ما توجبه علامة السهم .فربما أخفق بعضهم حتى لا يخطئ بشيء ،وينجح البعض فيحظى بالسهم الوافر.وحقيقته تمليك المال على المخاطرة ،وهو أصل في بطلان عقود التمليكات الواقعة على الأخطار ،كالهبات والصدقات وعقود البياعات ونحوها إذا علقت على الأخطار. والقرعة في الحقوق تنقسم إلى معنيين: أحدهما: تطييب النفوس من غير إحقاق واحد من المقترعين ولا بخس حظه…والثاني: مما ادعاه مخالفونا في القرعة بين عبيد أعتقهم المريض ولا مال له غيرهم, فقول مخالفينا هنا من جنس الميسر المحظورة بنص الكتاب؛ لما فيه من نقل الحرية عمن وقعت عليه إلى غيره بالقرعة ،ولما فيه أيضا من إحقاق بعضهم وبخس حقه حتى لا يخطئ منه بشيء واستيفاء بعضهم حقه وحق غيره ،ولا فرق بينه وبين الميسر في المعنى. (أحكام القرآن للجصاص :4/ 127) قال الحصکفیؒ: (و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف. (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا, بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي ,كقرض.(الدرالمختار:2/305) وفی الھندیۃ: ويشترط أن يتمكن من الاستنماء بكون المال في يده أو يد نائبه، فإن لم يتمكن من الاستنماء فلا زكاة عليه، وذلك مثل مال الضمار ،كذا في التبيين. وهو كل ما بقي أصله في ملكه ,ولكن زال عن يده زوالا لا يرجى عوده في الغالب, كذا في المحيط . (الفتاوى الهندية (1/ 174)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / فیصل احمد صاحب