021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نماز میں فرض قراءت کی مقدار
61839نماز کا بیاننماز کے فرائض و واجبات کا بیان

سوال

سوال:نماز میں جو قراءت پڑھنا فرض ہے،اس سے سورہ فاتحہ پڑھنا مراد ہے یا سورہ فاتحہ کے بعد والی سورت مراد ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دو مسئلے الگ الگ ہیں،ایک ہے نماز میں مطلقا قراءت کا فرض ہونا اور دوسرا ہےسورہ فاتحہ اور اس کے ساتھ کوئی اورسورت ملانا۔ مطلقا قراءت جو فرض ہے وہ ایک آیت پڑھنے سے بھی ادا ہوجاتا ہے،اگرچہ وہ سورہ فاتحہ ہی کی ایک آیت کیوں نہ ہو،البتہ یہ شرط ہے کہ وہ آیت ایک ہی کلمے پر مشتمل نہ ہو،جیسے ن،ق،ص وغیرہ،بلکہ دو یا زیادہ کلمات پر مشتمل ہو،جیسے:"ثم نظر" یا "لم یلد"وغیرہ۔ اس تفصیل کے ساتھ ایک آیت کے بقدر قراءت کے فرض ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو ایک آیت کے بقدر بھی قراءت نہ کرے تو اس کی نماز فرض قراءت چھوٹ جانے کی وجہ سے بالکل نہ ہوگی۔ جبکہ سورہ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانا جوواجب ہے،اس کی کم از کم مقدار ایک بڑی آیت یا چھوٹی تین آیات ہیں،جن کے حروف کی تعداد کم از کم تیس ہوں،جیسے : "ثم نظر ثم عبس و بسر ثم ادبر واستکبر"۔ اس تفصیل کے ساتھ ایک بڑی یا تین چھوٹی آیات کے بقدر قراءت کے نماز میں واجب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو اس قدر قراءت نہ کرے اس کی نماز واجب قراءت چھوٹ جانے کی وجہ سے واجب الاعادہ ہے،اگرچہ فرض ایسی صورت میں اس کے ذمے سے ساقط ہوجائے گا،جبکہ اس نے فرض قراءت کے بقدر قراءت کرلی ہو۔
حوالہ جات
"الدر المختار " (1/ 537): "(وفرض القراءة آية على المذهب) هي لغة: العلامة. وعرفا: طائفة من القرآن مترجمة، أقلها ستة أحرف ولو تقديرا، ك (لم يلد) ، إلا إذا كان كلمة فالأصح عدم الصحة وإن كررها مرارا إلا إذا حكم حاكم فيجوز ذكره القهستاني. ولو قرأ آية طويلة في الركعتين فالأصح الصحة اتفاقا لأنه يزيد على ثلاث آيات قصار قاله الحلبي". "الدر المختار " (1/ 458): "(وضم) أقصر (سورة) كالكوثر أو ما قام مقامها، هو ثلاث آيات قصار، نحو {ثم نظر} [المدثر: 21] {ثم عبس وبسر} [المدثر: 22] {ثم أدبر واستكبر} [المدثر: 23] وكذا لو كانت الآية أو الآيتان تعدل ثلاثا قصارا ذكره الحلبي". قال ابن عابدین رحمہ ﷲ:"(قوله تعدل ثلاثا قصارا) أي مثل - {ثم نظر} [المدثر: 21]- إلخ وهي ثلاثون حرفا، فلو قرأ آية طويلة قدر ثلاثين حرفا يكون قد أتى بقدر ثلاث آيات، لكن سيأتي في فصل يجهر الإمام أن فرض القراءة آية وأن الآية عرفا طائفة من القرآن مترجمة أقلها ستة أحرف ولو تقديرا كلم يلد إلا إذا كانت كلمة فالأصح عدم الصحة اهـ ومقتضاه أنه لو قرأ آية طويلة قدر ثمانية عشر حرفا يكون قد أتى بقدر ثلاث آيات. وقد يقال: إن المشروع ثلاث آيات متوالية على النظم القرآني مثل {ثم نظر} [المدثر: 21] إلخ ولا يوجد ثلاث متوالية أقصر منها، فالواجب إما هي أو ما يعدلها من غيرها لا ما يعدل ثلاثة أمثال أقصر آية وجدت في القرآن، ولذا قال تعدل ثلاثا قصارا ولم يقل تعدل ثلاثة أمثال أقصر آية. على أن في بعض العبارات تعدل أقصر سورة فليتأمل وسنذكر في فصل الجهر زيادة في هذا البحث. (قوله ذكره الحلبي) أي في شرحه الكبير عن المنية. وعبارته: وإن قرأ ثلاث آيات قصارا أو كانت الآية أو الآيتان تعدل ثلاث آيات قصار خرج عن حد الكراهة المذكورة يعني كراهة التحريم. قال الشارح في شرحه عن الملتقى: ولم أره لغيره وهو مهم فيه يسر عظيم لدفع كراهة التحريم. اهـ".
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب