021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی سے متعلق چند سوالات
61886 حکومت امارت اور سیاستدارالاسلام اور دار الحرب اور ذمی کے احکام و مسائل

سوال

مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کے قیام کے کتنے طریقے ہیں؟ اور کون کون سے ہیں؟ کیا "تغلُّب" کے ذریعے امام بن جانے والے شخص کی خلافت منعقد ہوجاتی ہے؟ اور اس کی اطاعت بھی شرعاً لازم ہے؟ مسالکِ اربعہ کی تصریحات اس بارے میں کیا ہیں؟ نیز اطاعت کی حدود کیا ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کے قیام کے جائز طریقے تین ہیں، البتہ امامت وخلافت چار طریقوں سے منعقد ہوجاتی ہے۔ (1) بیعتِ اہلِ حل وعقد، (2) استخلاف یا جانشینی، (3) شوریٰ، (4) استیلاء وتغلب۔ شریعت کی نظر میں مسلمانوں کے درمیان اتفاق واتحاد اور نظمِ اجتماعی کا قیام انتہائی ضروری چیز ہے، امتِ مسلمہ کے درمیان انتشار وافتراق کی شریعت نے کسی قیمت پر اجازت نہیں دی، اس لیے مسلمان حکومت کے خلاف مسلَّح جد وجہد کی اجازت نہیں۔ صرف ایک صورت میں مخصوص شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دی گئی ہے۔ امام اور امیر چاہے عادل ہو یا ظالم، جائز امور میں اس کی اطاعت واجب اور ضروری ہے۔ البتہ حکومت کے خلاف مسلح جد وجہد اور اپنے حق کا دفاع دو الگ الگ چیزیں ہیں، جس کی تفصیل منسلکہ تحریر میں "امام کے خلاف مسلح جد وجہد کی شرعی حیثیت" تحت صفحہ نمبر:48 پر مذکور ہے۔
حوالہ جات
.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب