021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سونا ادھار دے کر نفع وصول کرنا
61890خرید و فروخت کے احکامبیع صرف سونے چاندی اور کرنسی نوٹوں کی خریدوفروخت کا بیان

سوال

بلال نے کلیم سے ایک آرڈر تیار کرنے کے لیے اس معاہدے پر پندرہ تولے سونا مانگا کہ اس پر ہونے والے پندرہ گرام سونے یعنی منافع کو  آپس میں نصف نصف تقسیم کریں گے،معاہدے کی مدت پندرہ دن تھی،جبکہ گاہک سے ایک لاکھ ایڈوانس بھی لیا گیا تھا اس شرط پر کہ اگر مقررہ وقت پر کسٹمر نے آرڈر نہ اٹھایا تو سیٹ توڑ کر اس پر جو لاگت آئی ہے وہ ایڈوانس میں سے کاٹ لی جائے گی۔

پندرہ دن مکمل ہونے کے بعد جب بلال نے سونا نہیں پہنچایا تو مطالبہ کرنے پر بلال نے تین چار دن کی مہلت مانگی،زیور تو تیار تھا،مگر کسٹمر ٹال مٹول کررہا تھا،ایک ماہ گزرنے کے بعد کلیم نے بلال سے کہا کہ معاہدے کے تحت سیٹ توڑدیں اور ایک لاکھ ایڈوانس سے مزدوری کاٹ کر میرا سونا بمع نفع واپس کردیں۔

اس طرح تین ماہ گزرنے کے بعد بلال نے سونا تو واپس کیا،مگر جو نفع ساڑھے سات گرام طے ہوا تھا اس میں سے پونے چار گرام واپس کیا،اس پر کلیم نے بلال سے کہا آپ نے تین ماہ بعد میرا سونا واپس کیا اور نفع نصف سے بھی کم،اس کے جواب میں بلال نے کہا کہ کسٹمر نے مجھے کچھ سونا واپس کردیا تھا جس کی وجہ سے نقصان ہوا۔

اس پر کلیم نے کہا کہ سونا کسٹمر کے آرڈر پر تیار کیا گیا تھا،اصول کے مطابق نقصان ایڈوانس سے کاٹا جائے،جس پر بلال نے کہا کہ میں اس طرح نہیں کرسکتا،کیونکہ کسٹمر سے میرا تعلق ہے،کلیم نے کہا ٹھیک ہے وہ آپ کے تعلق دار ہیں تو آپ ان کو اپنا نفع چھوڑدو،میرا نفع کیوں کاٹتے ہو؟

اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ نقصان دونوں کا شمار ہوگا یا کلیم بلال سے اپنا نفع پورا وصول کرے،جبکہ معاہدے میں بھی یہی طے ہوا تھا کہ پندرہ گرام حاصل ہونے والا نفع آپس میں نصف تقسیم ہوگا،اس مسئلے میں رہنمائی فرمائیں۔

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ دکاندار کو دیے گئے سونے کی واپسی یقینی تھی، یعنی یقینی طور پر اس کے ذمہ سونا واپس کرنا لازم تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سنار حضرات سے گفتگو کرنے پر معلوم ہوا کہ:

  1. بعض اوقات دکاندار کے پاس آرڈر تیار کرنے کے لیے سونے کی کمی ہوتی ہے تو وہ دوسرے دکاندار سے سونا ادھار لیتا ہے اور پھر نفع کے ساتھ خالص سونا واپس کرتا ہے۔
  2. کبھی ایک دکاندار کے پاس مطلوبہ ڈیزائن نہیں ہوتا، وہ دوسرے دکاندار سے ناخالص سونے سے تیار شدہ   مطلوبہ ڈیزائن کا زیور  لیتا ہے، پھر اس کے عوض وہ خالص سونا  دیتا ہے۔
  3. اس طرح سونے کے ادھار لینے کے معاملات سنار حضرات کے درمیان چلتے رہتے ہیں، البتہ ان میں دوسرے دکاندار کی طرف سے دیے گئے سونے کی واپسی یقینی ہوتی ہے اور سونا دینے والا دکاندار نفع بھی یقینی طور پر وصول کرتا ہے، کبھی سونے کی صورت میں اور کبھی کرنسی کی شکل میں۔

مذکورہ بالا تمہید کی روشنی میں سوال کا جواب یہ ہے کہ صورتِ مسئولہ میں دیے گئے 15 تولے سونے کی حیثیت قرض کی ہے، کیونکہ سوال میں تصریح کے مطابق پہلے دکاندار کے ذمہ اتنا سونا واپس کرنا یقینی طور پر لازم تھا، جبکہ کاروبار میں شرکت کے لیے دیے گئے مال کی لازمی طور پر واپسی (ضمان) کی شرط نہیں لگائی جا سکتی، کیونکہ شرکت و مضاربت کے کاروبار کے درست ہونے کے لیے نفع اور نقصان دونوں میں شرکت ضروری ہے، نیز شرکت کے طور پر دیےگئے مال کی حیثیت شرعاً امانت کی ہوتی ہے اور بغیر تعدی اور کوتاہی کے ضائع ہونے کی صورت میں اس کا ضمان وصول نہیں کیا جا سکتا۔

لہذا مذکورہ صورت میں ادھار لینے والے دکاندار کے ذمہ صرف پندرہ  (15)  تولے  سونا واپس کرنا ہی لازم تھا، اس کی طرف سے زائد دیا گیا سونا قرض پر نفع ہونے کی وجہ سے سود میں داخل ہے، اس لیے دوسرے دکاندار کے ذمہ لازم ہے کہ وہ نفع کے نام سے لیا گیا زائد سونا  پہلے دکاندار کو واپس کرے اور اس کے علاوہ مزید نفع کا مطالبہ بھی چھوڑ دے۔

حوالہ جات
شرح معاني الآثار (4/ 60، رقم الحديث: 5735):
حدثنا حسين قال: سمعت يزيد بن هارون قال: أخبرنا سفيان الثوري , عن سلمة , فذكر بإسناده مثله , إلا أنه لم يقل " اشتروا له " وقال " اطلبوا " . قال أبو جعفر: فذهب قوم إلى إجازة استقراض الحيوان , واحتجوا في ذلك بهذه الآثار . وخالفهم في ذلك آخرون , فقالوا: لا يجوز استقراض الحيوان . وقالوا: يحتمل أن يكون هذا , كان قبل تحريم الربا , ثم حرم الربا بعد ذلك , وحرم كل قرض جر منفعة , وردت الأشياء المستقرضة إلى أمثالها , فلم يجز القرض إلا فيما له مثل۔
الفتاوى الهندية (3/ 202)دارالفکر، بیروت:
قال محمد رحمه الله تعالى في كتاب الصرف إن أبا حنيفة رحمه الله تعالى كان يكره كل قرض جر منفعة قال الكرخي هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض غلة ليرد عليه صحاحا أو ما أشبه ذلك۔

 محمد نعمان خالد

 دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

  16/ جمادی الاولی 1439ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے