61861 | طلاق کے احکام | طلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان |
سوال
ایک شخص نے اپنی بیوی سے تقریباً چھ بار دو دو تین تین منٹ کےوقفے سے یہ الفاظ کہے:"اگر تم اپنے چچا کے گھر گئی تو میرا اور تمہارا راستہ الگ ہے یعنی طلا ق ہے" مخاطب بیوی ہی تھی۔ابھی تک اس کی بیوی چچا کےگھر نہیں گئی۔اس کا کیا حکم ہے؟ اس سے بچنے کا کوئی طریقہ ہو تو بتا دیجیے۔
وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ اس کا تکرار سے اس کی تاکید اور تنبیہہ کی نیت تھی، نئی طلاق دینا مراد نہیں تھا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں تصریح کے مطابق سائل کا بار بار یہ الفاظ (اگر تم اپنے چچا کے گھر گئی تو میرا اور تمہارا راستہ الگ ہے یعنی طلا ق ہے) کہنے سے تاکید کا ارادہ تھا، نئے سرے سے طلاق دینا مراد نہیں تھا، اس لیے مذکورہ عورت کے اپنے چچا کے گھر جانے سے دیانتاً (فیما بینہ وبین اللہ) ایک ہی طلاق واقع ہو گی۔ لیکن اگر یہ معاملہ قاضی کی عدالت میں پہنچ جائے اور گواہوں کے ذریعہ مذکورہ الفاظ کو ثابت کر دیا جائے تو قاضی اور جج خاوند کی نیت کا اعتبار نہیں کرے گا، بلکہ ظاہری الفاظ کو دیکھتے ہوئے عورت کے اپنے چچا کے گھر جانے پر تین طلاق کے وقوع کا حکم لگا دے گا۔ اور عورت اپنی ذات کے حق میں قاضی کی طرح ظاہری الفاظ پر عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے، کیونکہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے یہ اصول بیان فرمایا ہے:"المرٲة کالقاضی" یعنی جس طرح قاضی فریقین کے الفاظ اور ظاہری صورتِ حال کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند ہوتا ہے، اسی طرح عورت پربھی خاوند کے ظاہری الفاظ کے مطابق عمل کرنا لازم ہوتا ہے، خلافِ ظاہر نیت کا اعتبار نہیں ہوتا۔
لہذا اگر عورت اپنے چچا کے گھر چلی گئی تو اس پر اپنی ذات کے حق میں تین طلاقیں سمجھنا ہی لازم ہے، اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ خاوند عورت کو اس کے اپنے چچا کے گھر جانے سے پہلے پہلے ایک طلاقِ بائن دیدے، جس سے نکاح ختم ہو جائے گا، پھر عورت عدت گزارے، عدت پوری ہونے کے بعد عورت اپنے چچا کے گھر چلی جائے تو شرط پوری ہو جائے گی، مگر عورت پر کوئی طلاق واقع نہ ہوگی، کیونکہ نکاح ختم ہو جانے سے وہ طلاق کے واقع ہونے کا محل نہیں رہی۔ اس کے بعد میاں بیوی باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔لیکن اس کے بعد خاوند کو صرف دو طلاقوں کا حق باقی ہو گا۔
حوالہ جات
المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة (3/ 504)
لو قال لامرأته: إن دخلت الدار فإنت طالق، إن دخلت الدار فأنت طالق إن دخلت الدار فأنت طالق، فدخلت مرة تطلق ثلاثاً، ولو قال لها: إن دخلت الدار فأنت طالق ثم إن دخلت الدار فأنت طالق ثم إن دخلت الدار فأنت طالق فدخلت الدار مرة تطلق واحدة ولا يقع الثلاث ما لم تدخل الدار ثلاث مرات كذا ههنا۔
البحر الرائق (4/ 316) دار المعرفة، بيروت:
وفي فتح القدير وعرف فلي الطلاق أنه لو قال لها إن دخلت الدار فأنت طالق إن دخلت الدار فأنت طالق إن دخلت الدار فأنت طالق فدخلت وقع ثلاث تطليقات۔
الدر المختار (3/ 376)
فروع في أيمان الفتح ما لفظه وقد عرف في الطلاق أنه لو قال إن دخلت الدار فأنت طالق إن دخلت الدار فأنت طالق إن دخلت الدار فأنت طالق وقع الثلاث وأقره المصنف ثمة۔
البحر الرائق (4/ 62) دار المعرفة، بيروت:
وقد ذكر في القنية خلافا فرقم فی الأصل بأنها إن قدرت على الهروب منه لم يسعها أن تعتد وتتزوج بآخر؛ لأنها في حكم زوجية الأول قبل القضاء بالفرقة ثم رمز شمس الأئمة الإوزجندي وقال قالوا هذا في القضاء ولها ذلك ديانة وكذلك إن سمعته طلقها ثلاثا ثم جحد وحلف أنه لم يفعل وردها القاضي عليه لم يسعها المقام معه ولم يسعها أن تتزوج بغيره أيضا۔
تبيين الحقائق (2/ 198) دار الكتب الإسلامي:
لو قال لها أنت طالق ونوى به الطلاق عن وثاق لم يصدق قضاء ويدين فيما بينه وبين الله تعالى لأنه خلاف الظاهر والمرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا سمعت منه ذلك أو شهد به شاهد عدل عندها۔
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی
17/ جمادی الاولی 1439ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد صاحب | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |