021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق علی المال میں مہر معاف نہ ہوگا
62107 نکاح کا بیانجہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان

سوال

بنت مولوی محمد عمرکی شادی مولوی عبدالحفیظ سے ہوئی بعوض مہر ساٹھ ہزار روپیہ اور ایک عدد پلاٹ (ایک سو بیس گز کے)،ان میں سے پچاس ہزارمولوی عبدالحفیظ نے ادا کئے،لیکن تھوڑی مدت کے بعدزوجین میں اختلافات بڑھ گئیں ،مجبوری کے باعث مولوی محمد عمر نے بیٹی کے شوہر عبد الحفیظ سے طلاق کا مطالبہ کیا فریقین نےایک شخص کو ثالث مقرر کیا کہ وہ جو فیصلہ کریگا وہ فریقین کو قابلِ قبول ہوگاثالث نے مولوی محمد عمرکے بھائی کو تحریر لکھنے کے لیے منتخب کیا اور ان سے تین تحریریں لکھوائی : 1۔اپنے اختیارکا 2۔طلاق نامہ کا 3۔رسید کی رقم کی ادائیگی کی تاریخ کا تحریریں مجلس میں پڑھ کرسنانے کے بعد فریقین ،ثالث اورگواہان نے اپنے اپنے دستخط کئےاور پھر ثالث نے مجلس میں موجود ایک شخص سے تین سکے لے کر مولوی عبد الحفیظ کے ہاتھ میں دیئے، اس نے تینوں سکے اپنے سسر مولوی محمد عمر کو دے دئیے کہ "آپ کی بیٹی کو روبرو گواہوں میں نے تین طلاق دی ہے "۔ مولوی عبد الحفیظ کتبِ عربیہ کا مدرس ہے اورطلاق اورخلع کے درمیان فرق کوبخوبی جانتاہے،اس لیے اب اس نے کہاکہ ہم نے خلع کیا ہے ،طلاق بالمال نہیں کیا ،لہذا میرے ذمہ حق ِمہر نہیں ہے ،ثالث بھی اس کی تائید کرتاہے حالانکہ طلاق والے تحریرنامہ میں خلع کا ذکر نہیں ہے ،اب فیصلے کا سربراہ کہتاہے کہ خلع ہوا ہے، کیونکہ ثالث کی بات حتمی ہوتی ہے اورگواہوں اورتحریروں کی کوئی حیثیت نہیں ہے،اس لیے کہ یہ تینوں تحریریں مولوی محمد عمرکے بھائی نے لکھی ہیں ،حالانکہ ان تحریروں کی بناء پر تو ثالث مقررہو اتھا اور مذکورہ تمام باتیں انہیں تحریروں پر طے ہوئی تھیں۔ ان تمام معلومات کی روشنی میں ایک استفتاء جامعہ بنوری ٹاؤن سے بھی لیا گیا ہے،جس میں اس کو طلاق علی المال قرار دیا گیاہے، مگر ثالث اس کو نہیں مانتااورکہتاہے کہ آپ نے مختلف رنگ دیکر فتوی لیا ہے ،میں اپنی نگرانی میں فتوی لیتاہوں اورپھر جامعہ منبع العلوم منگھوپیرسے لیا ،اورسوال میں خلع لکھا حالانکہ کاغذات میں خلع کا ذکرنہیں اورگواہ اس کی تائید نہیں کرتے، ان تمام چیزوں کی فوٹو کاپیاں اس استفتاء کے ساتھ منسلک ہیں، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ 1۔مسئولہ صورت میں مطلقہ حقِ مہر کی حقدار ہے یانہیں ؟ 2۔مذکورثالث کا شرعی حکم کیا ہے ؟یعنی اس نے جس رائے کا اظہارکیاہے وہ ٹھیک ہے یانہیں؟ 2۔فیصلے کے سربراہ کی رائے شریعت کے مطابق ہے یانہیں؟وضاحت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1،2،3) آپ کا ارسال کردہ مسئلہ اور منسلکہ کا غذات کا بغور جائز لینے کے بعد ہم اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ مسئولہ صورت طلاق علی المال کی ہے، خلع کی نہیں، لہذا اس عقد کی وجہ سے خاوند سے مہر ساقط نہیں ہوا، بیوی اس کامطالبہ کرسکتی ہے، خاوند پر اس کا دینا واجب ہے اور ثالث کی یہ بات درست نہیں کہ یہ خلع ہے طلاق نہیں۔
حوالہ جات
البناية شرح الهداية (5/ 527) أما إذا كان العقد بلفظ الطلاق على مال، فهل تقع البراءة عن الحقوق المتعلقة بالنكاح؟ ففي ظاهر الرواية لا يقع؛ لأن لفظ الطلاق لا يدل على إسقاط الحق الواجب بالنكاح. فتح القدير للكمال ابن الهمام (4/ 211) فالصحيح إزالة ملك النكاح ببدل بلفظ الخلع، فإن الطلاق على مال ليس هو الخلع بل في حكمه. بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 152) بخلاف الطلاق على مال؛ لأنه لا يدل على إسقاط الحقوق الواجبة بالنكاح لا نصا، ولا دلالة. بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 151) والحاصل أن ههنا ثلاث مسائل: الخلع، والمبارأة والطلاق على مال، ولا خلاف بينهم في الطلاق على مال أنه لا يبرأ به من سائر الحقوق التي وجبت لها بسبب النكاح. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 460) قوله ويسقط الخلع والمبارأة كل حق إلخ من أن البدل إن كان مسكوتا عنه ففيه ثلاث روايات أصحها براءة كل منهما عن المهر لا غير، فلا يطالب به أحدهما الآخر قبل الدخول، أو بعده مقبوضا أو لا؛ حتى لا ترجع عليه بشيء إن لم يكن مقبوضا، ولا يرجع الزوج عليها إن كان مقبوضا كله .
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب