021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چینل سے اشتہارات کے لئے ایئر ٹائم کی خریدو فروخت کے کاروبار اور اس میں سرمایہ کاری کا حکم
61992اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

ایک سرمایہ دار شخص ملکی اور غیر ملکی نشریاتی اداروں سے ایک مختص ٹائم کروڑوں دے کر خرید لیتا ہے، پھر اس ٹائم کو یونٹوں میں تقسیم کر دیتا ہے، کم سے کم وقت جو سیکنڈوں میں ہوتا ہے اسے ایک ماہ کے لئے 16 ہزار میں فروخت کرتا ہے، اور وہ اس میں مختلف پروڈکٹس، اداروں، افراد اور دیگر چیزوں کی تشہیر کرتا ہے، تشہیر کروانے والی کمپنیوں ، اداروں اور افراد سے منٹوں کے حساب سے رقم لیتاہے، اس خریدے ہوئے وقت میں وہ دیگر عام افراد کو بھی شریک کرتا ہے، ان لوگوں کا تشہیر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، مگر وہ (سرمایہ دار آدمی)ان لوگوں کو اس خریدے ہوئے وقت میں شریک ہونے کی وجہ سے16 ہزار کے بدلے ماہانہ 3 ہزار، اور 50 ہزار کے بدلے ماہانہ 12 ہزار نفع دیتا ہے، اس کا اشتہارات کا کاروبار جب تک چلتا رہے گا وہ اسے ڈالروں کی شکل میں نفع دیتا رہے گا۔ جب اس کا کام ختم ، تو اس کا نفع بھی منقطع ہو جائے گا۔ اور جو رقم شریک نے سرمایہ دار کے پاس جمع کروائی تھی اس کا اسے ایک کوڈ نمبر دیتا ہے، خریدنے والا( یعنی شریک) اس کوڈ کو آگے کم یا زیادہ پیسوں کے بدلے فروخت بھی کر سکتا ہے،اگر سرمایہ دار کو نقصان ہو گا تو اس کے ساتھ ممبر شپ (یعنی شرکت) کرنے والا شخص بھی جمع کروائی ہوئی رقم سے محروم ہو جائے گا۔ شرعی اعتبار سے ایسی فرم میں پیسہ لگانا درست ہے یا نہیں؟ نیز اس سے ملنے والا نفع حلال ہے یا حرام؟ )تنقیح: مستفتی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سرمایہ دار شخص مثلاً ایک منٹ چینل سے خرید لیتا ہے، اور اس کو آگےکمپنیوں اور اداروں کو فروخت کرتا ہے، یہ سرمایہ کار دوسروں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنا پیسہ لگائیں، اور 16 ہزار روپے پر 3000 روپے ماہانہ متعین نفع دیتا ہےبشرطیکہ کاروبار چلتا رہے، اگر کاروبارمیں نقصان ہو گیا تو کوئی رقم واپس نہیں دے گا، نیز پیسہ لگانے کے بعد 5 دن تک پیسہ لگانے والے کو اختیار ہے کہ چاہے تو اپنی رقم واپس لے لے، لیکن اگر 5 دن گزر گئے تو اس کے بعد رقم واپس نہیں لی جا سکتی، البتہ اگر کوئی کاروبار سے نکلنا چاہے تو یہ سرمایہ دار شخص اس کو اس کی رقم کے حساب سے آن ایئر ٹائم (بحساب 16 ہزار روپے فی سیکنڈ)دیتا ہے، جسے پھر چاہے تو وہ شخص کسی کو کم یا زیادہ روپے میں فروخت کردے یا اپنے پاس رکھے رکھے ضائع کردے۔)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں پہلا سوال یہ ہے کہ کیا اس سرمایہ دار شخص کا نشریاتی اداروں سے وقت خرید کر آگے کمپنیوں، اداروں اور افراد کو فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہےکہ بنیادی طور پر اس شخص کا یہ کاروبار جائز ہے،یہ اجارۃ الاشخاص(یعنی کسی شخص یا کمپنی کو رقم دے کر کوئی کام کروانا، جس کام کو وہ کمپنی/شخص اپنے آلات یا اپنی مہارت یا دونوں کااستعمال کرتے ہوئے سرانجام دے )ہے، نشریاتی اداروں سے وقت خریدنا کسی موجود حسی چیز (Tangible Asset) کو خریدنا نہیں، بلکہ یہ کسی کمپنی کے منافع /خدمات (Services)لینا ہے، یہ منافع مستقل طور (یعنی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے) نہیں لئے جا رہے، اس لئے یہ حقوق کی خریدو فروخت نہیں(فقہ البیوع،1/268)، بلکہ ایک خاص مقررہ وقت کے لئےحاصل کئے جا رہے ہیں،اور خاص وقت کے لئے حصولِ منافع/خدمات کا عقد یا تو اشیاء کا اجارہ ہےاگر کسی چیز کوعقدِ اجارہ کے بعد اپنے قبضے میں لے کر استعمال کیا جائے(یعنی:اجارۃ الاشیاء)، یا پھر کسی شخص یا کمپنی کو اجارے پر لینا ہے اگرکسی چیز کو قبضے میں لے کر استعمال نہ کیا جا رہا ہو بلکہ اس شخص یا کمپنی کی کوئی خدمت (Service) لی جا رہی ہو۔لہذاپہلے یہ شخص نشریاتی اداروں سے تشہیر کا وقت خریدتا ہے جو کہ "اجارۃ الاشخاص "ہے، پھر یہ شخص اس کل وقت میں تھوڑا تصرف کرتا ہے اور اس مجموعی وقت کے اجزاء بناتا ہے، پھر بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہو گا کہ غیر ملکی نشریاتی اداروں سے وقت ڈالروں میں خرید کر کسی دوسری کرنسی میں فروخت کردیا، نیز جن افراد یا کمپنیوں کو یہ فروخت کرتا ہے ان کے اشتہارات کو آگے نشریاتی ادارے تک پہنچانا اور دوسرے انتظامات تو بہر حال اس کو کرنا پڑتے ہیں، اس لئے بنیادی طور پر اس کا یہ کاروبار جائز ہے۔ فی الفتاوى الهندية (4/ 425، دارالفکر): "وإذا استأجر دارا وقبضها ثم آجرها فإنه يجوز إن آجرها بمثل ما استأجرها أو أقل، وإن آجرها بأكثر مما استأجرها فهي جائزة أيضا إلا إنه إن كانت الأجرة الثانية من جنس الأجرة الأولى فإن الزيادة لا تطيب له ويتصدق بها، وإن كانت من خلاف جنسها طابت له الزيادة ولو زاد في الدار زيادة كما لو وتد فيها وتدا أو حفر فيها بئرا أو طينا أو أصلح أبوابها أو شيئا من حوائطها طابت له الزيادة ۔۔۔۔۔وذكر الخصاف في كتاب الحيل أنه إذا كان المستأجر دارا فكنسها من التراب ثم آجرها بأكثر مما استأجر لا تطيب له الزيادة، وإن آجرها بأكثر مما استأجر وقال عند الإجارة على أن أكنس الدار يطيب له الفضل كذا في الذخيرة۔" البتہ سوال میں سرمایہ کاری کا جو طریقہ ذکر ہے، وہ شرعاً جائز نہیں، کیونکہ اس میں لوگوں کو یہ سرمایہ دار آدمی ان کی سرمایہ کاری پر متعین نفع دے رہا ہے، جبکہ شریعت کا اصول یہ ہے کہ سرمایہ کاری خواہ بصورت شرکت ہویابصورت مضاربت ،اس میں سرمایہ پر متعین نفع دینا جائز نہیں ہوتا، نیز ایسی شرط لگانے سے عقدِ شرکت یا مضاربت فاسد ہو جاتا ہے، اسی طرح نقصان کو صرف پیسہ شامل کرنے والے سرمایہ کاروں پر ڈالنا بھی جائز نہیں، بلکہ جو بھی (خواہ سرمایہ دار خود یا دوسرے لوگ)اس کاروبار میں سرمایہ شامل کر کے نفع لے رہا ہے، اسے نقصان بھی برداشت کرنا ہو گا،ان خرابیوں کی وجہ سے اس کاروبار میں موجودہ صورت میں سرمایہ کاری جائز نہیں۔ سرمایہ کاری کے طریقے کو درست کرنے کے لئے اس سرمایہ دار آدمی کو شرکت (اگر وہ خود بھی اپنا سرمایہ شامل کر رہاہے)یا مضاربت(اگر وہ صرف دوسروں کی رقم سے کاروبار کر رہا ہے اور خود اپنا پیسہ شامل نہیں کر رہا)کا عقد کرنا ہو گا، یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سرمایہ دار آدمی لوگوں سے پیسہ لے کر ہر ایک کے نام سے علیحدہ علیحدہ وقت خرید کر آگے فروخت کرے، اور خود یہ سرمایہ دار اپنی پہلے سے طے شدہ متعین اجرت لے کر بقیہ سارا نفع پیسہ دینے والے لوگوں کو دے دے، اس صورت میں نقصان بھی سارے کا سارا لوگوں کا ہو گااور نفع بھی، اس سرمایہ دار کو صرف اپنی متعین اجرت ملے گی، اس طریقےکے مطابق سرمایہ دار شخص "وکیل بالاجرۃ"(یعنی کسی شخص کو طے شدہ رقم دے کر کوئی کام کروانا)کہلائے گا، لہذا سرمایہ کاری کے طریقے کو شرعاً درست کرنے کے لئے ان تین(شرکت، مضاربت، یاوکیل بالاجرۃ) میں سے کوئی ایک طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے، شروع کرنے سے پہلے ان طریقوں کی تفصیلات کسی مستند دارالافتاء میں کسی سے بالمشافہہ مل کر سمجھ لی جائیں، نیز اس کاروبار اور سرمایہ کاری کے جواز کی ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ اس میں ایسے اشتہارات نہ چلائے جاتے ہوں جن میں کسی ایسے کام(موسیقی، عورتوں کی تصاویر ،حرام اشیاء مثلاً شراب وغیرہ، یا احکامِ شریعت سے متصادم کسی بات کی تشہیر) کا ارتکاب کیا جاتا ہو جو شرعاً ممنوع ہیں، ایسے اشتہارات چلانا، اجرت لینا یا ایسے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنا جائز نہیں۔
حوالہ جات
فی مجلة الأحكام العدلية: "المادة (1336) يشترط بيان الوجه الذي سيقسم فيه الربح بين الشركاء , وإذا بقي مبهما ومجهولا تكون الشركة فاسدة. المادة (1337) يشترط أن تكون حصة الربح الذي بين الشركاء جزءا شائعا كالنصف والثلث والربع فإذا اتفق على أن يكون لأحد الشركاء كذا درهما مقطوعا من الربح تكون الشركة باطلة۔"فقط
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمران مجید صاحب

مفتیان

مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب