غسل واجب کرنے والی چیزوں، فرائض اور ،سنتوں کا بیان
سوال
کیافرماتےہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم نےکتابوں میں مختلف غسل کے طریقے پڑھے ہیں،ان میں سب سے معتبر اورمسنون طریقہ کون ساہے؟ اورآج کل صابون اورشیمپو بھی نہانےکاحصہ بن چکےہیں،ان کااستعمال کس وقت کیاجائے؟نیزان تمام لوازمات کےساتھ مکمل طورپرغسل مسنون کاطریقہ بمعہ امثلہ کے بیان کردیں تاکہ عمل میں بھی آسانی ہواوربیان کرنابھی آسان ہو،نیزحوالہ جات بھی تفصیلاعنایت فرمادیں
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
غسل کامسنون طریقہ یہ ہےکہ پہلے استنجاء کیاجائے،پھرجسم کے کسی حصہ پرنجاست لگی ہوتواسے صاف کیاجائے،پھروضوکیاجائے،اگرنہانے کی جگہ ایسی ہوجہاں پانی نہیں نکلتا اورجمع ہوجاتاہے توپھرپاؤں آخرمیں دھوئےورنہ مکمل وضوکرے،اس کے بعدبدن پرپانی اس ترتیب سےبہائےکہ پہلے سرپر،پھرداہنے کندھے پر،پھربائیں کندھے پر،اس ترتیب سے سارےجسم پر تین مرتبہ پانی ڈالدیں۔
غسل کے تین فرائض ہیں:کلی کرنا،ناک میں پانی ڈالنااورسارے جسم تک پانی پہنچانا۔
غسل مسنون میں ایک مرتبہ پورے بدن پر پانی ڈال لینے کےبعد دوبارہ ڈالنے سے پہلےصفائی کے لئے کوئی بھی مائع اورجامدچیزاستعمال کی جاسکتی ہے،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتایعنی صابن کااستعمال اس دروان کیاجاسکتاہے جب پورےبدن کودھورہاہو،یہ مسنون کے خلاف نہ ہوگا۔
حوالہ جات
رد المحتار (ج 1 / ص 443):
”( وسننه ) كسنن الوضوء سوى الترتيب .
وآدابه كآدابه سوى استقبال القبلة ؛ لأنه يكون غالبا مع كشف عورة وقالوا : لو مكث في ماء جار أو حوض كبير أو مطر قدر الوضوء والغسل .
فقد أكمل السنة ( البداءة بغسل يديه وفرجه ) وإن لم يكن به خبث اتباعا للحديث ( وخبث بدنه إن كان ) عليه خبث لئلا يشيع ( ثم يتوضأ ) أطلقه فانصرف إلى الكامل ، فلا يؤخر قدميه ولو في مجمع الماء لما أن المعتمد طهارة الماء المستعمل ، على أنه لا يوصف بالاستعمال إلا بعد انفصاله عن كل البدن لأنه في الغسل كعضو واحد ، فحينئذ لا حاجة إلى غسلهما ثانيا إلا إذا كان ببدنه خبث ولعل القائلين بتأخير غسلها إنما استحبوه ليكون البدء والختم بأعضاء الوضوء ، وقالوا : لو توضأ أولا لا يأتي به ثانيا ؛ لأنه لا يستحب وضوءان للغسل اتفاقا ، أما لو توضأ بعد الغسل واختلف المجلس على مذهبنا أو فصل بينهما بصلاة كقول الشافعية فيستحب ( ثم يفيض الماء ) على كل بدنه ثلاثا مستوعبا من الماء المعهود في الشرع للوضوء والغسل وهو ثمانية أرطال ، وقيل : المقصود عدم الإسراف .
وفي الجواهر لا إسراف في الماء الجاري ؛ لأنه غير مضيع وقد قدمناه عن القهستاني ( بادئا بمنكبه الأيمن ثم الأيسر ثم رأسه ) على ( بقية بدنه مع دلكه ) ندبا ، وقيل يثني بالرأس ، وقيل يبدأ بالرأس وهو الأصح . “