021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
روایت ” من استوی یوماہ فھو مغبون” کی تحقیق
62244حدیث سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

   ایک مصنف نے اپنی کتاب میں یہ حدیث" من استوی یوماہ فھو مغبون"  ذکر کی ہے، اس کے بارے میں پوچھنا ہے کہ کیا  یہ حدیث ہے؟ اگر یہ حدیث ہے تو اس کی حیثیت کیا ہے؟ وضاحت فرما کر ممنون فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذكوره بالا روایت کو مختلف ائمۂ کرام رحمہم اللہ نے اپنی کتب میں مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے اور اس روایت کے بارے میں ائمۂ کرام رحمہم اللہ کے دو قول ہیں، جن کی تفصیل یہ ہے:

پہلا قول:

حضرت شيرويہ بن شہر دار دیلمی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب " فردوس الأخبار بمأثور الخطاب " میں کچھ الفاظ کے اختلاف کے ساتھ بغیر سند کےاس روایت  کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف کی  ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس کا مرفوعاً روایت کرنا نقل کیا ہے۔ اسی وجہ سے علامہ زرکشی، علامہ سخاوی اور علامہ سیوطی رحمہم اللہ نے  علامہ دیلمی رحمہ اللہ  کے حوالے سے لکھا ہے کہ  انہوں نے اس روایت کو سندِ ضعیف کے ساتھ نقل کیا ہے،  اور ان حضرات نے سند کا تذکرہ کرتے ہوئے صرف تین واسطے " عن محمد ابن سوقة عن الحارث عن علي مرفوعا" ذکر کیے ہیں، لیکن  یہ سند دو وجہ سے قابلِ اعتبار نہیں:

پہلی وجہ یہ کہ اس سند میں انقطاع ہے، کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات سن چالیس ہجری(40ھ) میں ہوئی ، جبكہ علامہ دیلمی رحمہ اللہ کی وفات پانچ سو چار ہجری (509ھ) میں ہوئی،  درمیان میں اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود صرف دو راویوں کا ہونا بعید ہے، لہذا یقیناً اس سند میں کئی راوی ساقط ہیں۔

دوسری وجہ یہ کہ علامہ دیلمی رحمہ اللہ نے  اپنی کتاب" فردوس الأخبار بمأثور الخطاب "  میں  پوری سند ذکر کیے بغیر  روایت کرنے والے صرف صحابی کے نام پر اکتفاء کیا ہے، چنانچہ علامہ شيرويہ بن شہر دار دیلمی رحمہ اللہ مسند الفردوس کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:

فردوس الأخبار بمأثور الخطاب للدیلمی: (ص: 6):

وحذفت اسانیدہا وحذوتھا مبوبۃ ابوابا علی حروف المعجم ومفصلۃ فصولا حسب تقارب الفاظ النبی صلی اللہ علیہ وسلم وذکرت علی را س کل حدیث منھا راویہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم وسمیتھا "فردوس الأخبار بمأثور الخطاب"۔

اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی: ۸۵۲ھ) کی کتاب"الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس مما ليس في الكتب المشهورة" کے مقدمہ میں محقق احمد الخضری نے علامہ دیلمی رحمہ اللہ کے حذف اسانید کا ذکر کیا  گیا ہے، عبارت ملاحظہ فرمائیں:

الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس لابن حجر (ص: 1):

أما أصل هذا الكتاب فهو كتاب " فردوس الأخبار بمأثور الخطاب المخرج على كتاب الشهاب "، لأبي شجاع شيرويه بن شهردار الديلمي، المتوفى سنة 509 هـ، أورد فيه نحوا من عشرة آلاف حديث ، من قصار الأحاديث ، خرجها على كتاب الشهاب للقضاعي ، المتوفى سنة 454 هـ، وحذف أسانيدها ۔

مذکورہ  عبارات اور مسند الفردوس کے مطبوعہ نسخوں سے معلوم ہوا کہ اس کتاب میں علامہ دیلمی رحمہ اللہ نے احادیث مبارکہ اسناد بیان نہیں کیں۔

رہا یہ سوال کہ علامہ زرکشی، علامہ سخاوی اور علامہ سیوطی نے علامہ دیلمی رحمہ اللہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے  یہ کیسے فرما دیا کہ انہوں نے سند ضعیف کے ساتھ اس کو بیان کیا ہے؟  اس کا صریح جواب تو بندہ کو کہیں نہیں ملا، البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ   کی کتاب "الغرائب الملتقطۃ" کے مقدمہ میں محقق  احمد الخضری نے لکھا ہے کہ علامہ دیلمی رحمہ اللہ کے بیٹے علامہ أبو منصور شہردار بن شيرويہ بن شہردار ديلمی رحمہ اللہ المتوفی ۵۵۸ھ نے اپنے والد کی کتاب میں مذکورہ احادیث کی اسناد بیان کیں اور اس میں مزید سات ہزار احادیث کا اضافہ کیا، اور اس بات کی بھی تصریح کی ہے کہ بیٹے کی تصنیف شدہ کتاب کا آدھا نسخہ مفقود  ہے، اس کے بعد حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بیٹے کے مخطوطہ سے ان احادیث کا ایک مجموعہ تیار کیا جو مشہور کتب احادیث میں موجود نہیں تھیں، یہ مجموعہ چار جلدوں پر مشتمل تھا، ان میں سے بھی تیسری جلد مفقود ہے:

الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس لابن حجر - مخطوط (ص: 1):

ثم جاء ابنه أبو منصور شهردار بن شيرويه بن شهردار الديلمي، المتوفى سنة 558ھ، فأسند كتاب أبيه، وزاد عليه نحوا من سبعة آلاف حديث ، فأصبح في مسنده ما مجموعه (17) ألف حديث ، ولم يطبع كتابه هذا، ومخطوطته الوحيدة حسب علمي نصفها مفقود ثم جاء ابن حجر فالتقط غرائب مسند الابن، ومخطوطته لم تطبع بعد، وتقع في أربعة أجزاء، الثالث منها مفقود.

 لہذا یہ بات ممکن ہے کہ علامہ زرکشی رحمہ اللہ  کو بیٹے کی تصنیف شدہ  کتاب(جس کا نصف حصہ مفقود ہو چکا ہے) کے کسی نسخہ سے مذکورہ  سند ملی ہو (اور دیلمی سے مراد چھوٹے دیلمی یعنی علامہ شيرويہ رحمہ اللہ کے بیٹے علامہ ابو منصور شہردار مراد ہوں) اور اس میں صرف یہی دو واسطے منقول ہوں۔ بعد میں انہی دو واسطوں کو علامہ سخاوی رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ذکر کر دیا۔ باقی  بندہ کو اس روایت کی سند تلاش کے باوجود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب "الغرائب الملتقطۃ"  میں بھی نہیں ملی، شاید حافظ ابن حجر  صاحب  رحمہ اللہ کی کتاب کی جو جلد مفقود ہو چکی ہے اس میں یہ سند مذکور ہو، واللہ  سبحانہ وتعالی اعلم بالصواب

مسند الفردوس  للديلمي (1/ 393، رقم الحديث: 5910) شيرويه بن شهر دار، المعروف بالديلمي (المتوفي:509ھ):

علي بن أبي طالب من استوى يوماه فهو مغبون ومن كان آخر يومه شرا فهو ملعون ومن لم يكن على الزيادة فكان على النقصان ومن كان على النقصان فالموت خير له۔

اللآلي المنثورة في الأحاديث المشهورة للزركشي (ص: 138) محمد بن عبد الله بن بهادر الزركشي المتوفى سنة 794 هـ دار الكتب العلمية، بيروت:

الحديث الرابع والعشرون من استوى يوماه فهو مغبون ومن كان آخر يومه شرا فهو ملعون ومن لم يكن على الزيادة فهو في النقصان فالموت خيرله ومن اشتاق الى الجنة سارع الى الخيرات ومن اشفق من النار لهي عن الشهوات ومن ترقب الموت هان عليه اللذات ومن زهد في الدنيا هانت عليه المصيبات۔

أسنده صاحب مسند الفردوس من حديث محمد ابن سوقة عن الحارث عن علي مرفوعا وهو اسناد ضعيف۔

المقاصد الحسنة في بيان كثير من الأحاديث المشتهرة على الألسنة للسخاوي (ص: 631، رقم الحدیث: 1080) محمد بن عبد الرحمن السخاوي، المتوفى 902ھ،  دار الكتاب العربي۔

حديث ( من استوى يوماه فهو مغبون ومن كان آخر يوميه شرا فهو ملعون ومن لم يكن في الزيادة فهو في النقصان ومن كان في النقصان فالموت خير له ومن اشتاق إلى الجنة سارع في الخيرات ) الحديث۔ الديلمي من حديث محمد بن سوقة عن الحارث عن علي به مرفوعا وسنده ضعيف۔

الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة (ص: 18):للعلامة جلال الدين السيوطي(المتوفى:911ھ):

حديث من استوى يوماه فهو مغبون الحديث بطوله. الديلمي من حديث علي وهو ضعيف.

مذکورہ وجوہ اور مستند ومشہور کتب احادیث میں اس  روایت کی سند نہ ملنے کی وجہ سے دیگر ائمۂ کرام رحمہم اللہ نے  اس کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کی نفی کی ہے،  چنانچہ حضرت علامہ عراقی اور علامہ طاہر پٹنی رحمہما اللہ نے لکھا ہے کہ یہ روایت ایک خواب کی حیثیت سے معروف ہے، حضور اکرم صلی اللہ وعلیہ وسلم سے اس کا ثبوت نہیں ملتا، علامہ عجلونی رحمہ اللہ کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتاہے، علامہ تاج الدین سبکی رحمہ اللہ نے اس کو ان روایات میں شامل کیا ہے جن کی کوئی اصل ثابت نہیں۔  اور ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اس کو موضوعات میں شمار کیا ہے:

إحياء علوم الدين ومعه تخريج الحافظ العراقي (6/ 411):

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من استوى يوماه فهو مغبون ومن كان يومه شرا من أمسه فهو ملعون حديث من استوى يوماه فهو مغبون ومن كان يومه شرا من أمسه فهو ملعون"قال العراقی:  لا أعلم هذا إلا في منام لعبد العزيز بن أبى رواد۔

تذكرة الموضوعات للفتني (ص: 10) طاهر الفتني الهندي:

"من استوى يوماه فهو مغبون ومن كان يومه شرا من أمسه فهو ملعون" لا يعرف إلا في منام لعبد العزيز بن رواد قال أوصاني به النبي صلى الله عليه وسلم في الرؤيا بزيادة في آخره رواه البيهقي.

أحاديث الإحياء التي لا أصل لها لتاج الدین السبكي (ص: 59):

حديث من استوى يوماه فهو مغبون الحديث: هذا رؤيا نوم عن عبد العزيز بن أبي رواد أنه رأى النبي في النوم فسأله فقال ذلك هكذا رواه البيهقي في الزهد۔

الموضوعات الكبرى (ص: 327، رقم الحديث: 457) نور الدين علي بن محمد بن سلطان المشهور بالملا علي القاري (سنة الوفاة: 1014 هـ):

  حديث  من استوى يوماه فهو مغبون ومن كان يومه شرا من أمسه فهو ملعون۔

كشف الخفاء ومزيل الالباس عما اشتهر من الاحاديث على ألسنة الناس (2/ 233) ، الشيخ إسماعيل بن محمد العجلوني المتوفى سنة 1162 ه‍ . دار الكتب العلمية بيروت - لبنان۔

 من استوى يوماه فهو مغبون ومن كان آخر يوميه شرا فهو ملعون ومن لم يكن على الزيادة فهو في النقصان ومن كان في النقصان فالموت خير له ومن اشتاق إلى الجنة سارع في الخيرات ومن أشفق من النار لهى عن الشهوات ومن ترقب الموت هانت عليه اللذات ومن زهد في الدنيا هانت عليه المصيبات. رواه الديلمي بسند ضعيف عن علي مرفوعا ، وفي الموضوعات الكبرى للقاري بلفظ من استوى يوماه فهو مغبون ومن كان يومه شرا من أمسه فهو ملعون . ثم قال لا يعرف إلا في منام ابن رواد ، وقال العراقي في تخريجه: لا أعلم هذا إلا في منام لعبد العزيز بن أبي رواد۔

خلاصہ یہ کہ بغیر سند کے علامہ دیلمی رحمہ اللہ کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، خصوصاً جبکہ علامہ دیلمی رحمہ اللہ سے پہلے کے ائمۂ کرام رحمہم اللہ نے اس کو بطورِ حدیث  نقل نہیں کیا، بلکہ بحوالۂ سند صرف ایک خواب کے طور پر بیان کیا ہے، (جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے) لہذا جب تک یہ روایت کسی مقبول  اور معتبر سند سے ثابت نہ ہو جائے اس کی نسبت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا  درست  نہیں۔

دوسرا قول:

اکثر حضرات نے مذکورہ روایت کو حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے خواب کا ایک جزو قرار دیا ہے،  اس کو بطورِ خواب ذکرکرنے والے حضرات میں امام ابو نعیم اصبہانی، علامہ خطیب بغدادی، حافظ ابنِ رجب حنبلی اور علامہ تاج سبکی رحمہم اللہ وغیرہ کے نام شامل ہیں،  یہ خواب حضرت ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "حلیۃ الاولیاء" میں بحوالۂ سند یوں  ذکر کیا ہے:

حلية الأولياء (8/ 35) أبو نعيم أحمد بن عبد الله بن أحمد بن إسحاق بن موسى بن مهران الأصبهاني (المتوفى: 430هـ):

 أخبرني جعفر بن محمد بن نصير وحدثني عنه عمر بن أحمد بن شاهين ثنا إبراهيم بن نصار حدثني إبراهيم بن بشار قال سمعت إبراهيم بن أدهم يقول بلغني أن الحسن البصري رأى النبي صلى الله عليه و سلم في منامه فقال يا رسول الله عظني قال: من استوى يوماه فهو مغبون ومن كان غده شرا من يومه فهو ملعون ومن لم يتعاهد النقصان من نفسه فهو في نقصان ومن كان في نقصان فالموت خير له۔

حاصلِ ترجمہ:(حضرت ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ نے سند ذکرکرنے کے بعد حضرت ابراہیم بن بشارؒ  سے نقل کیا ہے) حضرت ابراہیم بن بشارؒ نے فرمایا: میں نے حضرت ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ  سے سنا ، وہ فرما رہے تھےکہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کی، انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! مجھے کوئی نصیحت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص جس کے دو دن (نیکی کرنے کے اعتبارسے) برابر گزرے وہ خسارے میں رہا  اور جس شخص کا آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے برا تھا وہ ملعون ہے اور جس نے اپنے نقصان کی  پرواہ نہ کی (تلافی کی کوشش  نہ کی)  وہ نقصان میں ہے اور جو شخص نقصان میں جا رہا ہو اس کے لیے موت بہتر ہے۔

یہ خواب حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے علاوہ اور بھی بعض حضرات کی طرف منسوب کیا گیا ہے، چنانچہ علامہ تاج الدین سبکی رحمہ اللہ نے علامہ بیہقی رحمہ اللہ کے حوالے سے عبد العزیز بن ابی رواد کی طرف نسبت کی ہے اور ان کے بعد آنے والے حضرات یعنی حافظ عراقی، علامہ طاہر پٹنی اور علامہ عجلونی رحمہم اللہ نے بھی اسی قول پر اعتماد کیا ہے، ان کے علاوہ علامہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ نے "لطائف المعارف" میں " رأى بعض المتقدمين النبي صلى الله عليه و سلم في منامه ۔۔۔۔۔۔ الخ" کے الفاظ ذکرکیے ہیں، علامہ خطیب بغدادی اور ابن ابی الدنیا رحمہما اللہ نے خواب دیکھنے والے کا نام ذکر کیے بغیر لفظِ رجل اور لفظ ِ شیخ ذکرکرنے پر اکتفاء کیا ہے، ان حضرات میں سے امام ابو نعیم اصبہانی، علامہ خطیب بغدادی اور علامہ ابن ابی الدنیا  رحمہم اللہ نے اس خواب کی  باقاعدہ سند بھی ذکر فرمائی ہے:

المنامات لابن أبي الدنیا(ص: 116) عبدالله بن محمد بن عُبيد بن سفيان بن قيس، الأموي، أبوبكر بن أبي الدنيا، البغدادي(المتوفي:281ھ):

حدثنا أبو بكر حدثني سلمة بن شبيب حدثني سهل بن عاصم عن الحسين بن موسى الخراساني عن شيخ من بني سليم قال رأيت النبي في منامي فقلت يا رسول الله ما حالك قال احدثك قلت حدثني قال من استوى يوماه فهو مغبون ومن كان غده شرا من يومه فهو ملعون ومن لم يكن في زيادة فهو في نقصان ومن كان في نقصان كان الموت خيرا له۔

اقتضاء العلم العمل للخطيب (ص: 205) أبوبكر، أحمد بن علي، المعروف بالخطيب البغدادي( المتوفي:  463هـ):

وأخبرنا ابن رزق ، قال : أنبأ عثمان بن أحمد ، ثنا محمد بن أحمد بن البراء ، ثنا داود بن رشيد ، ثنا الوليد بن صالح ، عن رجل ، رأيت النبي صلى الله عليه وسلم في النوم فقال لي : « من استوى يوماه فهو مغبون ، ومن كان غده شر يوميه ، فهو ملعون ومن لم يعرف النقصان من نفسه فهو إلى نقصان ، ومن كان إلى نقصان فالموت خير له »

لطائف المعارف (ص: 321) الإمام الحافظ زين الدين أبي الفرج عبدالرحمن بن أحمد بن رجب الحنبلي الدمشقي(المتوفي:795ھ):

رأى بعض المتقدمين النبي صلى الله عليه و سلم في منامه فقال له أوصني؟ فقال له : من استوى يوماه فهو مغبون و كان يومه شرا من أمسه فهو ملعون و من لم يتفقد الزيادة في عمله فهو في نقصان و من كان في نقصان فالموت خير له۔

طبقات الشافعية الكبرى (6/ 376) الإمام تاج الدين بن علي بن عبد الكافي السبكي (المتوفي:771ھ):

حديث من استوى يوماه فهو مغبون . . . الحديث: هذا رؤيا نوم عن عبد العزيز بن أبي رواد أنه رأى النبي ( صلى الله عليه وسلم ) في النوم فسأله فقال ذلك هكذا رواه البيهقي في الزهد۔

جہاں تک مذکورہ  خواب کی سندکا تعلق ہے تو امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ کی بیان کردہ سند ائمۂ اور محدثین ِ کرام رحمہم اللہ کے اصولوں کی روشنی میں معتبر اور مقبول ہے، کیونکہ جرح وتعدیل کی کتب میں اس سند کے کسی راوی پر وضاع، کذاب،  متہم بالوضع یا ضعیفِ شدید وغیرہ کا حکم نہیں لگایا گیا،  اس کی تفصیل یہ ہے:

  1. اس سند کے سب سے  پہلے راوی  جعفر بن محمد بن نصیر ہیں، ان  کو علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ثقہ قرار دیا ہے، اسی طرح علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کو  بغداد کے محدثین میں سے شمار کیا ہے اور ائمہ کرام رحمہم اللہ کا کسی راوی کو محدث کہنا اس راوی کی تعدیل ہے، عبارت ملاحظہ فرمائیں:

تاريخ الإسلام للإمام (25/ 396) شمس الدين محمد أحمد الذهبي(المتوفی: 748ھ):

جعفر بن محمد بن نصير بن قاسم: أبو محمد البغدادي الخلدي الخواص بشيخ الصوفية  وكبيرهم ومحدثهم. سمع: الحارث بن أبي أسامة، وبشر بن موسى، وعلي بن عبد العزيز۔

سير أعلام النبلاء (12/ 115) شمس الدين محمد أحمد الذهبي(المتوفی: 748ھ):

3180- الخلدي: الشيخ الإمام القدوة المحدث شيخ الصوفية, أبو محمد جعفر بن محمد بن نصير بن قاسم البغدادي كان يسكن محلة الخلد.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وقال الخطيب: ثقة. قال إبراهيم بن أحمد الطبري: سمعت الخلدي يقول: مضيت إلى عباس الدوري وأنا حدث, فكتبت عنه مجلسا, وخرجت فلقيني صوفي فقال: أيش هذا؟ فأريته فقال: ويحك, تدع علم الخرق وتأخذ علم الورق, ثم خرق الأوراق, فدخل كلامه في قلبي, فلم أعد إلى عباس, ووقفت بعرفة ستا وخمسين وقفة.

  1. دوسرے راوی عمر بن أحمد بن شاہين ہیں، ان کو علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے علامہ دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ کے حوالے سے ثقہ لکھا ہے، لیکن ان سے بعض اوقات خطا بھی ہوجاتی تھی اور خطا کے بارے میں علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جس راوی کو ائمہ کرام نے ثقہ قرار دیا ہو، اور اس کو کچھ وہم بھی ہوتا ہو  تو اس  وہم سے اس کی ثقاہت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔لہذا جس راوی کے بارے میں "لہ أوھام  أو یھم فی حدیثہ أو یخطئ فیہ" کے الفاظ منقول ہوں اس کی روایت مردود نہیں ہو گی۔بشرطیکہ بہت زیادہ وہم نہ ہو، کیونکہ تھوڑا بہت وہم تو ہر انسان کو ہوتا ہے۔[1] اسی لیے علامہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ نے شرح علل الترمذی میں لکھا ہے کہ ثقہ راوی کی روایت غالب خطا ہونے کی صورت میں رد ہو گی، ورنہ نہیں۔[2]

تاريخ بغداد وذيوله (11/ 267): الخطیب بغدادی، ط العلمية:

حَدَّثَنِي عَلِيّ بْن مُحَمَّد بْن نصر الدينوري قَالَ: سمعت حمزة بْن يُوسُف السهمي يَقُولُ: سمعت الدارقطني يَقُولُ: أَبُو حفص عُمَر بْن أَحْمَد بْن شاهين يلج على الخطأ وهو ثقة.

سمعت أبا نعيم الحافظ- بأصبهان- يَقُولُ: توفي أَبُو حفص بْن شاهين يوم الأحد الحادي عشر من ذي الحجة سنة خمس وثمانين وثلاثمائة، ودفن بباب حرب عند قبر أَحْمَد بْن حنبل. أَخْبَرَنَا العتيقي قَالَ: توفي أَبُو حفص بْن شاهين، فذكر مثل قول أَبِي نعيم غير أنه قال: اثنتا عشرة خلون من ذي الحجة، قَالَ: وكان صاحب حديث ثقة مأمونا.

  1. تیسرے راوی جمال الدين إبراہيم بن نصّار الدين کو علامہ ابن العماد رحمہ اللہ نے محدثین میں سے شمار کیا ہے، اور ان کو حدیث کے معاملے میں "ہيّن ليّن" کہا ہے اور ائمۂ کرام رحمہم اللہ کے نزدیک  یہ چھٹے اور  کمزور درجے کی جرح ہے، اس لیے ایسے راوی کی روایت ترغیب وترہیب کے باب میں قبول ہوتی ہے:

شذرات الذهب (6/ 294) محمد بن محمد بن علي البلبيسي القاهري الشافعي المعروف بابن العماد(المتوفی: 887ھ):

 توفي جمال الدين إبراهيم بن نصار الدين محمد بن كمال الدين عبد العزيز بن محمد بن أحمد بن هبة الله بن أبي جرادة العقيلي الحلبي المعروف بابن العديم الحنفي سمع من الحجار وحدث عنه وكان هينا لينا ناظرا إلى مصالح أصحابه ناب عن والده مدة بحلب ثم استقل بعد وفاته وكان يحفظ المختار ويطالع في شرحه۔

  1. چوتھے راوی ابراہیم بن بشار واسطی رحمہ اللہ ہیں، یہ حضرت ابراہم بن ادہم رحمہ اللہ کے خادم تھے، ان کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کئی ائمۂ کرام رحمہم اللہ کے حوالے سے ثقہ قرار دیا ہے:

تهذيب التهذيب لابن حجر العسقلانی(1/ 95):

كان ابراهيم بن بشار ثقة من كبار اصحاب ابن عيينة وممن سمع منه قديما وقال الحاكم ثقة مأمون من الطبقة الاولى من اصحاب ابن عيينة وقال يحيى ابن الفضل ثنا ابراهيم الرمادي وكان والله ثقة.

الإصابة في تمييز الصحابة لابن حجر العسقلانی (2/ 333):

روينا في أخبار إبراهيم بن أدهم قال إبراهيم بن بشار خادم إبراهيم بن أدهم صحبته بالشام۔

  1. پانچویں  راوی حضرت ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ ہیں جو مشہور زاہد اور عابد ہیں، امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ان کو ثقات میں سے شمار کیا ہے، اسی طرح علامہ مزی رحمہ اللہ نے تہذیب الکمال میں ان كو امام نسائی رحمہ اللہ اور علامہ ذہبی  رحمہ اللہ  نے سیر اعلام النبلاء میں  امام دارقطنی رحمہ اللہ کے حوالے سے ان کو  ثقہ قرار دیا ہے:

الثقات لابن حبان (6/ 24، رقم الترجمۃ: 656):

إبراهيم بن أدهم بن منصور الزاهد أبو إسحاق ويروي عن أبي إسحاق السبيعي روى عنه الثوري وبقية بن الوليد أصله من بلخ ثم انتقل بعد إن تاب وترك الإمارة إلى الشام طلبا للحلال فأقام بها مرابطا غازيا يصبر على الجهد الجهيد والفقر الشديد والورع الدائم والسخاء الوافر إلى أن مات في بلاد الروم سنة إحدى وستين ومائة حدثنا عمر بن عبد الله بالأبلة قال ثنا عبد الله بن حنين قال سمعت خلف بن تميم يقول سمعت أبا الأحوص يقول رأيت من بكر بن وائل خمسة ما رأيت مثلهم قط إبراهيم بن أدهم ويوسف بن أسباط وحذيفة بن قتادة ونعيم العجلي وأبو يونس القوي۔

سير أعلام النبلاء ط للعلامہ الذہبی (7/ 387):

142- إبراهيم بن أدهم بن منصور بن يزيد بن جابر العجلي القدوة، الإمام، العارف، سيد الزهاد، أبو إسحاق العجلي- وقيل: التميمي الخراساني، البلخي، نزيل الشام.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قد سقت أخبار إبراهيم أزيد مما هنا، وأخباره في: (تاريخ دمشق وفي: الحلية؛ وتآليف لابن جوصا، وأخباره التي رواها ابن اللتي، وأشياء. وثقه: الدارقطني.

تهذيب الكمال (2/ 27) الحافظ جمال الدين المزي (المتوفی: 742ھ):

بخ ت إبراهيم بن أدهم بن منصور بن يزيد بن جابر العجلي وقيل التميمي أبو إسحاق البلخي الزاهد سكن الشام روى عن أبان بن أبي عياش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قال النسائي: ثقة مأمون أحد الزهاد۔

  1. اس سند کے پانچویں اور آخری راوی حضرت حسن بصری رحمہ اللہ ہیں، جو مشہور تابعی، فقہیہ اور زاہد گزرے ہیں، جن کی ثقاہت مسلّم ہے۔البتہ ان کو مدلسین میں سے شمار کیا گیا ہے، لیکن مذکورہ سند میں تدلیس کی جرح مضر نہیں، کیونکہ اس میں یہ خود صاحب  واقعہ ہیں، تدلیس کا طعن کسی اور سے روایت لینے  میں مضر ہوتا ہے۔

مذکورہ سند کے پہلے چار رواة نے اس روایت کو صیغہٴ اخبار ،تحدیث یا  صیغۂ سماع سے بیان کیا ہے اور محدثین کرام رحمہم اللہ کا اصول ہے کہ جب راوی صیغہٴ تحدیث، صیغہٴ سماع یا صیغہ ٴ اخبار سے روایت بیان کرے تو اس سے سماع ثابت ہو جاتا ہے اور ایسی سند متصل شمار ہوتی ہے۔ البتہ  پانچویں راوی ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ نے "بلغنی" کے الفاظ سے یہ خواب بیان کیا ہے، جس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ درمیان میں کوئی راوی ساقط ہے، ایسی سند منقطع اور ضعیف شمار ہوتی ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ اگر ساقط راوی سے روایت کرنے والا شخص ثقہ ہو تو وہ فضائل اور ترغیب وترہیب کے باب میں قابلِ اعتبار ہوتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ مذکورہ خواب سند کے اعتبار سے مقبول  اورمعتبر ہے، لہذا اس روایت کو خواب کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ البتہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرتے ہوئے حدیث کے طور پر بیان کرنا جائز نہیں، جس کی تفصیل پہلے قول کے تحت گزر چکی ہے۔

 


[1] قواعد فی علوم الحدیث(ص:275)بتحقیق الشیخ أبی غدۃ۔

[2] شرح علل الترمذی البن رجب الحنبلی (ص:109تا 115)بتحقیق الشیخ نور الدین عتر۔

الغلط الذی یرد بہ الراوی  او یترک: قال احمد بن سنان: کان ابن مہدی لا یترک حدیث رجل الا متہما بالکذب أَو رجلا الغالب علیہ الغلط۔

حوالہ جات
٫٫٫٫٫٫

     محمد نعمان خالد

   دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

   4/ جمادی الاخری 1439ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب