021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"نیارہ ” یعنی سونے والی مٹی کی خریدوفروخت کا حکم
62256خرید و فروخت کے احکامبیع صرف سونے چاندی اور کرنسی نوٹوں کی خریدوفروخت کا بیان

سوال

سونا جب تیار کیا جاتا ہے تو پالش اور چھیجت کے دوران سونا مسلسل انتہائی باریک ذرات کی شکل میں ضائع ہو کر مٹی میں ملتا رہتا ہے، زرگر حضرات اس مٹی کو سونے اور کبھی کرنسی کے عوض فروخت کرتے ہیں، جبکہ یہ یقینی طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ اس مٹی میں کتنے فیصد سونا ہے؟ صرف اندازہ لگایا جاتا ہے۔ کیا اس مٹی  کی خریدوفروخت جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ مذکورہ مٹی میں موجود سونے کی مقدار معلوم نہیں ہوتی، اس لیے اس مٹی کی سونے کے بدلے خریدوفروخت جائز نہیں، کیونکہ اس صورت میں جانبین سے سونے کی مقدار کم وبیش ہونے کا احتمال ہے، جبکہ سونے کی سونے کے بدلے خریدوفروخت میں جانبین سے سونے کے وزن کا برابر ہونا ضروری ہے۔ اس لیے  اس كی جائز صورت یہی ہے کہ نیارہ یعنی سونے کی ملاوٹ والی مٹی کی خریدوفروخت سونے کی بجائے کرنسی کے بدلے ہی کی جائے۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع (5/ 196) دار الكتاب العربي:
 وأما تراب الصاغة فإن كان فيه فضة خالصة فحكمه حكم تراب معدن الفضة وإن كان فيه ذهب خالص فحكمه حكم تراب معدن الذهب وإن كان فيه ذهب وفضة فإن اشتراه بذهب أو فضة لم يجز لاحتمال أن يكون ما فيه من الذهب أو الفضة أكثر أو أقل أو مثله فيتحقق الربا۔
فتح القدير (6/ 294):
بخلاف تراب الصاغة فإنه إنما لا يجوز بيعه بجنسه لاحتمال الربا حتى لو باع بخلاف جنسه جاز۔

              محمد نعمان خالد

                                                            دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

                       7/ جمادی الاخری 1439ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب