021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قسم کی ایک صورت,,آیندہ اگر میں نے دو روٹیوں سے زیادہ کھائی تو میرے ذمہ ہردولقموں پر دونفل لازم ہے ،، کاحکم
62771قسم منت اور نذر کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

ایک شخص نے قسم کھائی کہ ,,آیندہ اگر میں نے دو روٹیوں سے زیادہ کھائی تو میرے ذمہ ہردولقموں پر دونفل لازم ہے ،، 1۔اب اس قسم سے چھٹکارے کی کیاصورت ہوگی ؟ایک دفعہ دونفل پڑھنے سے کام بن جائے گا یازندگی میں جب بھی ایک مجلس میں دو روٹی سے زائد کھائے ہردو لقمے پر نوافل پڑھتا رہے کیا صورت اختیار کی جائے ؟ 2۔ اگرایک ہی دسترخوان پر دوتین قسم کے کھانے ہوں مثلا روٹی سالن ، چاول ، فروٹ چاٹ وغیرہ تو دوروٹیا ں کھانے کے بعد اوپر سے چاول وغیرہ کھانے سے بندہ حانث ہوگا یانہیں ؟ 3۔ اگر دووقت دوپہر اور رات کے کھانوں کے درمیان میں کہیں کھانے کا اتفاق ہوگیا تواس کا کیا حکم ہے؟ الجواب باسم ملہم الصواب

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔ قسم کو پورا کرنا چاہئے اس کی صورت یہ ہے کہ شخص اگر دوہی روٹی کھاتا رہے اور ایک وقت میں دوسے زیادہ نہ کھائے توحانث نہ ہوگا اور نفل بھی لازم نہ ہوگا ۔ اور اگر کسی وقت دو سے زیادہ روٹیاں کھائی تو حانث ہوجائے گا اورہر دولقمے کے حساب سے نفل پڑھنا لازم ہوگا۔ اس سے قسم پوری ہوجائے گی اس کے بعد دوسری دفعہ اگر ایسا ہو ا یعنی دوسے زیادہ روٹی کھا ئی تو دوبارہ حانث نہ ہوگااور نفل لازم نہ ہوگا ۔ 2۔ یہ قسم روٹی سے متعلق ہے لہذااگر روٹی ایک وقت میں دوسے زیادہ کھائے تو حانث ہوگا ، چاول فروٹ وغیرہ اس میں داخل نہیں ہوگا۔ 3۔ اس کا بھی یہی حکم ہے کہ اگرایک وقت میں دوسے زیادہ روٹی کھائے گا تو حانث ہوگا ۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 771) (ولا) حنث (في) حلفه (لا يأكل لحما بأكل) مرقه أو (سمك) إلا إذا نواهما الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 781) قال إن أكلت أو) قال إن (شربت أو لبست) أو نكحت ونحو ذلك فعبدي حر (ونوى معينا) أي خبزا أو لبنا أو قطنا مثلا (لم يصدق أصلا) فيحنث بأي شيء أكل أو شرب وقيل يدين كما لو نوى كل الأطعمة أو كل مياه العالم حتى لا يحنث أصلا لنيته محتمل كلامه الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 781) قال الكرخي: إذا حلف لا يتغدى فأكل تمرا أو أرزا أو غيره حتى شبع لا يحنث، ولا يكون غداء حتى يأكل الخبز، وكذلك إن أكل لحما بغير خبز اعتبارا للعرف كذا في الاختيار ونحوه في البحر والفتح والظاهر أنه مبني على أن المراد بالغداء ما يتغدى به في العرف غالبا، وهذا وإن كان يتغدى به في العرف لكنه قليل، ونظيره ما مر في الإدام. وفي البحر عن المحيط: لو تغدى بالعنب لا يحنث إلا أن يكون من أهل الرستاق ممن عادتهم التغدي به في وقته الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 843) (حلف لا يفعل كذا تركه على الأبد) لأن الفعل يقتضي مصدرا منكرا والنكرة في النفي تعم (فلو فعل) المحلوف عليه (مرة) حنث و (انحلت يمينه) وما في شرح المجمع من عدمه سهو (فلو فعله مرة أخرى لا يحنث) إلا في كلما (ولو قيدها بوقت) كوالله لا أفعل اليوم (فمضى) اليوم قبل (الفعل بر) لوجد ترك الفعل في اليوم كله (وكذا إن هلك الحالف والمحلوف عليه) بر لتحقق العدم ولو جن الحالف في يومه حنث عندنا، خلافا لأحمد فتح. (قوله وما في شرح المجمع) أي لابن ملك من عدمه أي عدم انحلال اليمين فهو سهو كما في البحر، بل تنحل فإذا حنث مرة بفعله لم يحنث بفعله ثانيا وللعلامة قاسم رسالة رد فيها على العلامة الكافيجي حيث اغتر بما في شرح المجمع، ونقل فيها إجماع الأئمة الأربعة على عدم تكرار الحنث (قوله لا يحنث) لأنه بعد الحنث لا يتصور البر وتصور البر شرط بقاء اليمين فلم تبق اليمين، فلا حنث رسالة العلامة قاسم عن شرح مختصر الكرخي
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب