021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زیورات کی زکوۃ ادا کرنے کا طریقۂ کار
62262زکوة کابیانسونا،چاندی اور زیورات میں زکوة کے احکام

سوال

زیورات کی زکوۃ ادا کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ کیا دکاندار اور گاہک کے لیے ایک ہی حکم ہے یا مختلف؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زكوة کی ادائیگی میں چونکہ چیز کی قیمتِ فروخت (جس قیمت پر وہ چیز بازار میں فروخت ہو) کا اعتبار ہوتا ہے، اس لیے زیورات کی زکوۃ کی ادائیگی میں کسٹمر اور دکاندار میں سے ہر ایک  کے لیے علیحدہ  حکم ہے، جس کی تفصیل یہ ہے:

1۔ دکاندار کے لیے حکم: دکاندار جس قیمت پر گاہک کو زیور فروخت کرتا ہے  اس قیمت کے اعتبار سے وہ   زیور کی زکوۃ ادا کرے گا۔مثلاً: اگر دکاندار    پچاس  ہزار (5,00,00)  روپے  فی تولہ  کا فروخت کرتا ہے، جس میں کھوٹ، پالش اور نگینے وغیرہ بھی شامل  ہوتے ہیں۔ لہذا دکاندار  ان تمام چیزوں کو ملا کر  فی تولہ پچاس ہزار روپے کے حساب سے زکوۃ اداکرے گا۔

2۔گاہک (کسٹمر)کے لیے حکم:

     گاہک کے لیے  حکم یہ ہے کہ جس قیمت پر سنار  اس سے زیورخریدے گا اس  کے حساب سے زکوۃ ادا کرے  گا، مثلاً: پچاس ہزار روپے فی تولہ کے حساب سے خریدا گیا   زیور دکاندار گاہک سے عام طور پرتقریباً چوالیس ہزار تولہ کے حساب سے خریدتا ہے، کیونکہ اس میں نگینے، موتی، پالش، چھیجت اور کھوٹ کی قیمت  کاٹ کر صرف خالص سونے کی قیمت ادا کی جاتی ہے،  لہذا گاہک کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ سنار سے اپنے زیور کی قیمت لگوا کر اس کی ڈھائی فیصد  زکوۃ ادا کر دے۔  

یہ بھی یاد رہے کہ  زکوۃ کی ادائیگی کے لیے زیور کی اس دن کی قیمت کا اعتبار ہو گا جس دن زیور کی زکوۃ نکالی جائے گی، زکوۃ اداکرنے کا والا خواہ  دکاندار ہو یا کسٹمر۔

حوالہ جات
حاشية ابن عابدين (2/ 286)ايچ ايم سعيد:
قوله ( وهو الأصح ) أي كون المعتبر في السوائم يوم الأداء إجماعا هو الأصح فإنه ذكر في البدائع أنه قيل إن المعتبر عنده فيها يوم الوجوب وقيل يوم الأداء اه  وفي المحيط يعتبر يوم الأداء بالإجماع وهو الأصح اه
بدائع الصنائع (2/ 22):
الواجب الأصلي عندهما هو ربع عشر العين وإنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء فيعتبر قيمتها يوم الأداء والصحيح أن هذا مذهب جميع أصحابنا لأن المذهب عندهم أنه إذا هلك النصاب بعد الحول تسقط الزكاة سواء كان من السوائم أو من أموال التجارة۔

              محمد نعمان خالد

                                                            دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

                       7/ جمادی الاخری 1439ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب