62473 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن وحدیث اور احکام شرعیہ کی تعلیم کو تمام دوسرے علوم پر فضیلت حاصل ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسانی زندگی میں جن علوم کی ضرورت پیش آتی ہے، وہ سب علم نافع میں شامل ہیں، اور ضروری ہے کہ مسلمان اپنے دینی تعلق کو قائم رکھتے ہوئے ان علوم میں آگے بڑھیں؛ تاکہ وہ ایک باعزت قوم کی حیثیت سے دنیا میں زندگی گزار سکیں، اور انسانیت کی خدمت کرسکیں، اس کے لئے اس تعلیم کا حاصل کرنا ضروری ہے، جس کو آج کل عصری تعلیم یا انگریزی تعلیم کہاجاتا ہے، لیکن افسوس کہ یہ نظام تعلیم مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں ہے، اب تو مغربی ملکوں میں بھی اور ہمارے ملک میں بھی تعلیم کو خدا بیزاری کی طرف لے جانے کا ذریعہ بنادیاگیا ہے، مسلمان ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہیں کہ انہیں اپنی نسلوں کو دین پر ثابت قدم رکھنا بھی ضروری ہے اور زیور تعلیم سے بھی آراستہ کرنا ہے۔اس پس منظرمیں اہم سوال آپ کی خدمت میں پیش ہے:
ایسے اسکول اگر مسلمانوں کے زیر انتظام ہوں تونصاب ِتعلیم میں کن امور کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے؟، بعض اسکولوں میں غیر شرعی افکار مثلاً ڈارون ازم، فرائڈ کا نظریہ جنس،غیر اخلاقی مضامین مثلاً میوزک، ڈانس، جنسی تعلیم اور تاریخ کے نام پر غیر معقول دیومالائی کہانیاں پڑھائی جاتی ہیں تو کیا مسلمان اپنے زیر انتظام تعلیمی اداروں میں ان مضامین کو پڑھا سکتے ہیں، خاص طور سے اس وقت جبکہ ان میں سے بعض مضامین کا پڑھانا اسکولوں کے لئے لازم ہو؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
قرآن و سنت کی بنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ شریعت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے دیگر علوم کی بقدرِ ضرورت کتب پر مشتمل نصاب ہونا چاہیے، جس میں اس بات کا اہتمام ضروری ہے کہ وہ نصاب اسلامی اصولوں اور احکامات سے متصادم نہ ہو، لہذا غیر شرعی افکار مثلاً : ڈارون ازم، فرائڈ کا نظریہ جنس،غیر اخلاقی مضامین مثلاً میوزک، ڈانس اور جنسی تعلیم وغیرہ کی کتب نصاب میں شامل کرنا جائز نہیں۔ نیزحکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر شرعی مضامین پرمشتمل کتب کو نصاب سے خارج کر ے، اگر حکومت اس بات کی طرف توجہ نہ دے تو ایسی صورتِ حال میں اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ خلافِ شرع مضامین کی تدریس کے دوران باطل اور غلط نظریات اور مضامین کی تردید کر یں اور طلباء کے سامنے ان سے متعلق اسلامی تعلیمات کی وضاحت کریں، تاکہ طلباء پر ان نطریات و افکار کا باطل ہونا واضح ہو جائے۔
حوالہ جات
تفسير الألوسي (5/ 220):
وأنت تعلم أن الرمي بالنبال اليوم لا يصيب هدف القصد من العدو لأنهم استعملوا الرمي بالبندق والمدافع ولا يكاد ينفع معهما نبل وإذا لم يقابلوا بالمثل عم الداء العضال واشتد الوبال والنكال وملك البسيطة أهل الكفر والضلال فالذي أراه والعلم عند الله تعالى تعين تلك المقابلة على أئمة المسلمين وحماة الدين، ولعل فضل ذلك الرمي يثبت لهذا الرمي لقيامه مقامه في الذب عن بيضة الإسلام ولا أرى ما فيه من النار للضرورة الداعية إليه إلا سببا للفوز بالجنة إن شاء الله تعالى، ولا يبعد دخول مثل هذا الرمي في عموم قوله سبحانه: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ۔
سنن الدارمي (ص: 575، رقم الحدیث: 2591):
أخبرنا عبد الله بن يزيد المقرئ، حدثنا سعيد بن أبي أيوب قال: حدثني يزيد بن أبي حبيب، عن أبي الخير: مرثد بن عبد الله، عن عقبة بن عامر أنه تلا هذه الآية: {وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة} ألا إن القوة الرمي۔
محمدنعمان خالد
دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی
18/جمادی الاخری 1439ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |