62479 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
اسکولوں میں طلباء سے داخلہ فیس، ماہانہ فیس، ٹرم فیس، ٹرانسپورٹ فیس، مطبخ فیس، امتحان فیس وغیرہ کے نام سے مختلف فیسیں لی جاتی ہیں اور داخلہ فیس کی مقدار بعض اوقات بہت زیادہ ہوتی ہے، یہ رقم تعمیر، اسٹیشنری، تزئین کاری اور جدید وسائل مثلاً کمپیوٹر لیب وغیرہ خریدنے میں بھی صرف ہوا کرتی ہے، داخلہ فیس دینے والا فیس دے کر محدود عرصہ تک اس سے مستفید ہوتا ہے ، پھر وہ اسکول سے چلا جاتا ہے، فیس کی بڑھتی ہوئی اس مقدار نے غریب ہی نہیں متوسط طبقہ کے لوگوں کے لئے بھی اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا مشکل سے مشکل تر کردیا ہے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا تعلیم کوخدمت کے بجائے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نفع دینے والی تجارت بنا لینا جائز ہے؟ نیز ان میں بعض اسکول تو شخصی ہوتے ہیں اور بعض تعلیمی اور رفاہی اداروں کے تحت چلتے ہیں؛ لیکن ا ن سے حاصل ہونے والے پیسوں سے غریب بچوں کو تعلیمی سہولت فراہم کرنے کے بجائے بلڈنگوں کووسعت دینے اور خوب صورت بنانے میں خرچ کردیاجاتا ہے، اسلام اس کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اصولی طور پرحکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ حصولِ تعلیم کے مواقع کو آسان بنائے، سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں تعلیمی ماحول کو بہتر سے بہتر بنائے اور تعلیم کے لیے کم سے کم فیس مقرر کرے، تاکہ معاشی حوالے سے متوسط اور غریب طلباء بھی بسہولت تعلیم حاصل کر سکیں۔ تاہم اگر حکومت ایسا انتظام نہیں کرتی تو یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ تعلیم کو ذریعہ معاش بنانا اسلام کے مزاج کے خلاف ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کل غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلباء بہت بڑی مقدار میں فیس برداشت نہ کرنے کی وجہ سے بالکل تعلیم سے محروم یا کم از کم اچھی تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
ایسی صورتِ حال میں اگر کوئی شخص اپنا پرائیویٹ تعلیمی ادارہ بناتا ہے تو اس کو چاہیے مناسب نفع کے ساتھ فیس وصول کرے، لیکن اگر وہ اچھا انتظام اور بہتر تعلیمی ماحول مہیا کرنے کے باعث کچھ زیادہ فیس لیتا ہے تو وہ رقم اس کے لیےحرام نہیں، کیونکہ امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ از خود اپنی مرضی سے اپنے بچوں کو ایسے اداروں میں داخل کرواتے ہیں۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (9/310):
ذكر بعض المشايخ أن الإجارة نوعان إجارة على المنافع ، وإجارة على الأعمال ، وفسر النوعين بما ذكرنا وجعل المعقود عليه في أحد النوعين المنفعة وفي الآخر العمل وهي في الحقيقة نوع واحد لأنها بيع المنفعة فكان المعقود عليه المنفعة في النوعين جميعا ، إلا أن المنفعة تختلف باختلاف محل المنفعة فيختلف استيفاؤها باستيفاء منافع المنازل بالسكنى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقد يقام فيه تسليم النفس مقام الاستيفاء كما في أجير الواحد۔
الفتاوى الهندية (4/ 411):
وأما شرائط الصحة فمنها رضا المتعاقدين ومنها أن يكون المعقود عليه وهو المنفعة معلوما علما يمنع المنازعة فإن كان مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة يمنع صحة العقد۔
حاشية ابن عابدين (6/ 76):
قوله ( تفسخ ) إنما قال تفسخ لأنه اختار قول عامة المشايخ وهو عدم انفساخ العقد بالعذر وهو الصحيح نص عليه في الذخيرة۔
محمدنعمان خالد
دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی
18/جمادی الاخری 1439ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |