62481 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
عصری تعلیمی اداروں میں تعلیم پانے والے بہت سے بچے غریب ہوتے ہیں، جو اپنی تعلیم کے اخراجات کے متحمل نہیں ہوتے تو کیا ایسے بچوں پر زکوۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر طالبِ علم نابالغ ہو تو ہر ایسے بچے کو زکوۃ دی جا سکتی ہے جو ہاشمی(سیّد) نہ ہو اور اس کی یا اس کے باپ کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت کے بقدرسونا،چاندی، نقدی ، سامانِ تجارت اور ضرورت سے زائد سامان (جو سال بھر استعمال میں نہ آئے) نہ ہو ، اسی طرح اس کی ملکیت میں ان میں سے کوئی سی دو ایسی اشیاء نہ ہو ں جن کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو ۔
اور اگر طالب علم بالغ ہو تو اس کو زکوۃ دینے کے لیے صرف اس کی اپنی ملکیت کا اعتبار ہوگا،خواہ اس کا باپ امیر ہو یا غریب۔ لہذا اس کی ملکیت میں مذکورہ بالا چیزوں میں سے ایسی کوئی ایک یا دو چیزیں نہیں ہونی چاہییں جن کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو، نیز وہ ہاشمی بھی نہ ہو ۔
یہ بات یاد رہے کہ مستحقِ زکوۃ بچوں کو زکوۃ کی رقم یا اس سے خریدے گئے سامان کا باقاعدہ مالک اور قابض بنانا ضروری ہے، کسی طالبِ علم کی فیس ادا کرنے یا علاج معالجہ میں زکوۃ کی رقم صرف کرنے سے زکوۃ ادا نہیں ہو گی۔اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ مستحقِ زکوۃ طلباء سے زکوۃ کی وصولی کے لیے وکالت فارم پُر کروا لیا جائے، اس کے بعد آپ کے لیے زکوۃ کی رقم دیگر بچوں مثلا: سید گھرانے سے تعلق رکھنے والوں کو بھی دی جاسکتی ہے اور پھر اسکول کے دیگر مصارف پر خرچ کرنے کی بھی گنجائش ہو گی۔
حوالہ جات
حاشية رد المحتار - (ج 2 / ص 377):
قوله: (تمليكا) فلا يكفي فيها الاطعام إلا بطريق التمليك، ولو أطعمه عنده ناويا الزكاة لا تكفي ط. وفي التمليك إشارة إلى أنه لا يصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق، إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضه كالاب والوصي وغيرهما، ويصرف إلى مراهق يعقل الاخذ كما في المحيط.
فتح القدير - (ج 4 / ص 180):
فصل فی المصارف:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( قَوْلُهُ وَالْفَقِيرُ مَنْ لَهُ أَدْنَى شَيْءٍ) وَهُوَ مَا دُونَ النِّصَابِ أَوْ قَدْرُ نِصَابٍ غَيْرَ نَامٍ، وَهُوَ مُسْتَغْرَقٌ فِي الْحَاجَةِ وَالْمِسْكِينُ مَنْ لَا شَيْءَ لَهُ۔
الفتاوی الھندیۃ(189/1)
ولا یجوز الدفع الی من یملک نصابا أی مال کان دنانیر، أو دراہم، أو سوائم، أو عروضا للتجارۃ أو لغیرالتجارۃ فاضلا عن حاجتہ الأصلیۃ فی جمیع السنۃ کذا فی الزاہدی۔
الفتاوی الھندیۃ(189/1)
ولا یدفع الی بنی ہاشم وہم آل علی، وآل عباس، وآل جعفر، وآل عقیل، وآل الحارث بن عبد المطلب کذا فی الہدایۃ۔
عيون المسائل للسمرقندي الحنفي (ص: 39)
قَالَ أَبُوْ يُوْسُفَ فِي "الْأَمَالِيْ ": يجوز أن يتصدق على ولد الرجل الغني إذا كان الابن كبيراً ولا يجوز على الصغير، وهو قول أبي حنيفة.
محمدنعمان خالد
دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی
18/جمادی الاخری 1439ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |