62482 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
بعض سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں مشرکانہ ترانے، وندے ماترم یا گیتا کے اشلوک شروع میں پڑھوائے جاتے ہیں، سوریہ نمسکار (صبح کے وقت جھک کر سورج کو سلام کرنے کا ایک عمل) کرایاجاتا ہے، یوگا کرایاجاتا ہے ،جس کاایک جز سوریہ نمسکاربھی ہے، کہیں طلبہ پر اس کو لازم کردیاگیا ہے، کہیں اس کی ترغیب دی جاتی ہے اور اس کے لئے ماحول سازی کی جاتی ہے، بعض ریاستوں میں خود ریاستی حکومت نے اسکولوں پر اس کا آرڈر جاری کردیا ہے، مشنری اسکولوں میں حضرت عیسی علیہ السلام کی فرضی تصویر یا مجسمہ کے سامنے دعا کرائی جاتی ہے، اور اگر چہ اس کو لازم نہیں کیاجاتا ہے؛ لیکن ترغیب دی جاتی ہے، یہاں تک کہ بعض مسلمان انتطامیہ اسکول میں زیادہ داخلے کی لالچ یا حکومت کو خوش کرنے کے لئے اس طرح کا عمل کراتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ :
الف: اگر سرکاری اداروں میں جبری طور پریہ عمل ہو تو مسلمانوں کے لئے کیاحکم ہے؟
ب: اگر سرکاری اداروں میں اختیاری طور پر اس کی ترغیب دی جائے تو ایسے اسکولوں میں بچوں کو داخل کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر غیر مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے پرائیوٹ اداروں میں اس کو لازم قرار دیا جائے اور اس کے سوا کوئی اورادارہ نہ ہوتو مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟
د: اگر غیر مسلم پرائیویٹ ادارہ ہو اور اس میں بطور ترغیب کے ان کاموں کے کرنے کا حکم دیاجائے تو کیا حکم ہوگا؟
ف: ان تمام صورتوں میں اگر ایسے ادارے موجود ہوں جو ان برائیوں سے پاک ہوں اور وہاں داخلہ ہوسکتا ہے تو اِن مشرکانہ افعال کو لازم کرنیو الے یا ترغیب دینے والے ادارے میں مسلمان بچوں کو داخل کرنا جائز ہوگا؟
ک: کیا مسلمان انتظامیہ کے لئے اس بات کی گنجائش ہوگی کہ وہ اسکول کی ترقی کی مصلحت کے تحت اپنے یہاں ان چیزوں کو رواج دیں،یا مسلمان بچوں کو ان سے الگ رکھیں اور صرف غیر مسلم بچوں کے لئے اس کا انتظام کریں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مسلمان انتظامیہ کے لیے کوئی بھی ایسا ترانہ اسکول یا کسی ادارے میں رائج کرنا جائز نہیں جس میں شرکیہ الفاظ ہوں یا وہ غیر شرعی تعلیمات کی عکاسی کرتا ہو۔ایسے ترانوں سے اجتناب ضروری ہے، ورنہ اسکول کی انتظامیہ اور ترانے والے بالغ طالب علم سب گنا ہگار ہوں گے۔ لہذا:
الف: اگر اسکول کی انتظامیہ کی طرف سے مشرکانہ اور خلافِ شرع ترانے پڑھنا لازم ہوں تو ایسی صورت میں بچوں کو ایسے اسکول میں بھیجنا جائز نہیں۔
ب: اگر ایسا ترانہ پڑھنے اور نہ پڑھنے میں طالبِ علم کو اختیار ہو تو بھی دیگر اسکولز موجود ہونے کی صورت میں بچوں کو ایسے اسکول میں نہیں بھیجنا چاہیے، کیونکہ بچے ماحول سے اثر لیتے ہیں، دوسرے بچوں کو دیکھ کر وہ بھی ایسے شرکیہ ترانے پڑھنا شروع کر دیں گے۔ تاہم اگر کوئی اچھا اسکول موجود نہ ہو تو پھر ایسے اسکول میں بچوں کو حصولِ تعلیم کے لیے بھیجا جا سکتا ہے، بشرطیکہ بچوں کی خوب کو سمجھا یاجائے کہ یہ غیر شرعی ترانہ ہے، اس کو بالکل نہیں پڑھنا۔
ج: ایسی صورت میں مسلمانوں کو اپنے ادارے کھولنے چاہیئیں۔
د: اس کا جواب نمبر(ب) کے تحت گزر چکا۔
ف: اگر ایسے ادارے موجود ہوں جو ان برائیوں سے پاک ہوں تو اس صورت میں ایسے اداروں میں بچوں کو داخل کروانا جائز نہیں جن میں اس طرح کے شرکیہ ترانوں کا پڑھنا لازم ہو۔
ک: ادارے کی ترقی یا زیادہ تعداد میں داخلے کے حصول کے لیے مسلمان انتظامیہ کے لیے شرکیہ ترانوں کا لازم کرنا جائز نہیں، زیرِ تعلیم طلباء خواہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، دونوں صورتوں کا ایک ہی حکم ہے۔
حوالہ جات
.............
محمدنعمان خالد
دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی
18/جمادی الاخری 1439ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |