021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جنرل انشورنس کے عدم جواز کی وجہ
62654سود اور جوے کے مسائلانشورنس کے احکام

سوال

جنرل انشورنس کو پہلے علماء جائز کہتے تھے، اب حرام کیوں کہا جا رہا ہے؟انشورنس کمپنی ہمیں سیکورٹی فراہم کرتی ہے، جیسے ہم کسی سوفٹ ویئر والے سے معاہدہ کرتے ہیں کہ جب بھی ہمارے سسٹم میں کوئی مسئلہ پیش آیا تو آپ ا س کو حل کریں گے، اس کوجائز کہا جاتا ہے، ان دونوں میں کیا فرق ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ہماری معلومات کے مطابق جنرل انشورنس کے بارے میں جمہور علمائے کرام کا موقف شروع سے ہی ناجائز ہونے کا ہے۔  کیونکہ جنرل انشورنس میں جو رقم لی جاتی ہے وہ کسی شرعی معاہدے کے تحت داخل نہیں ہوتی، اس لیے اس رقم کی حیثیت شرعاً قرض کی ہے اور حادثہ پیش آنے کے وقت جو اضافی رقم دی جاتی ہے وہ قرض پر نفع ہونے کی وجہ سے سود میں داخل ہے، کیونکہ حدیث پاک میں قرض پر نفع لینے کو سود کہا گیا ہے، نیز  انشورنس میں رقم کا ملنا حادثہ پر موقوف ہوتا ہے، جس میں وقوع اور عدم وقوع کے دونوں احتمال ہوتے ہیں، پھر کتنی رقم ملے گی؟ اس کا بھی کچھ علم  نہیں ہوتا، اس لیے اس میں سود کے ساتھ جوئے اور غرر(غیر یقینی صورت حال) کا عنصر بھی پایا جاتا ہے اور یہ دونوں معاملات بھی شرعاً ناجائز اور حرام ہیں۔

 باقی سوفٹ ویئر انجینئر سے کیا گیا  معاہدہ عقد صیانۃ کےتحت آتا ہے، جس  کی تفصیل یہ ہے کہ  ایک شخص سوفٹ ویئر انجینئر یا گاڑیوں کی مرمت کرنے والے دکاندار سے کہتا ہے کہ میں آپ کو سال میں اتنی رقم دوں گا، جب بھی میرا سسٹم یا  میری گاڑی خراب ہو تو آپ اس کو ٹھیک کریں  گے، مرمت کرنے والا شخص اس کو قبول کر لیتا ہے۔یہ معاملہ درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:

  1. کاریگر کی اجرت طے ہو۔
  2. مدت اجارہ (جتنی مدت کے لیے مرمت کروانے کا معاہدہ کیا گیا ہو) متعین ہو۔
  3. جس چیز کی مرمت کروانے کا معاملہ کیا جائے اس میں طے شدہ مدت کے دوران خرابی کا غالب گمان ہو۔
  4. احتیاطاً سال میں دو یا تین مرتبہ کسٹمر اس سسٹم یا گاڑی وغیرہ کا کاریگر سے معائنہ کروائے، تاکہ یقینی طور پر اجرت کو عمل کے بدلے میں قرار دیا جا سکے۔
  5.     ماخذہ فتاوی دارالعلوم کراچی:60/1887)

ان شرائط کے باوجود  اس معاملہ میں ایک اعتبار سے غرر کا پہلو آتا ہے، وہ یہ کہ اس میں یہ علم نہیں ہوتا کہ گاڑی یا سسٹم وغیرہ کتنی مرتبہ خراب ہو گا اور اس کو درست کرنے پر کاریگر کا کتنا خرچہ آئے گا؟  لیکن مالی معاملات میں غرر کے معتبر ہونے کے لیے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے کچھ شرائط ذکر کی ہیں،  ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ غرر کثیر ہو، اگر غرر یسیر ہو تو اس  سے معاملہ فاسد اور ناجائز نہ ہو گا ۔

عقد صیانہ میں غرر یسیر ہی ہوتا ہے، کیونکہ دکاندار اپنے تجربہ کی بنیاد پر اس حساب سے اجرت وصول کرتا ہے جتنا اس کو گاڑی وغیرہ خراب ہونے کا امکان ہوتا ہے، پھر اس کے بعد اگر بالفرض تھوڑی بہت کمی بیشی ہو تو اس میں لوگ چشم پوشی یعنی درگزر سے کام لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس میں عام طور پر جھگڑا نہیں ہوتا۔ اس لیے  مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ ضرورت کے پیش نظر عقد صیانہ کا معاہدہ شرعی اعتبار سے جائز اور جنرل انشورنس کے معاملے سے مختلف ہے، لہذا جنرل انشورنس کو عقد صیانہ پر قیاس کرکے جائز کہنا درست نہیں۔

حوالہ جات

المبسوط للسرخسي (15/ 164)

والجهالة بعينها لا تفسد العقد فكل جهالة لا تفضي إلى المنازعة فهي لا تؤثر في العقد۔

 
 
 
 

الموسوعة الفقهية الكويتية (31/ 151):

شروط الغرر المؤثر:

يشترط في الغرر حتى يكون مؤثرا الشروط الآتية:

أ - أن يكون الغرر كثيرا:- يشترط في الغرر حتى يكون مؤثرا أن يكون كثيرا، أما إذا كان الغرر يسيرا فإنه لا تأثير له على العقد.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ب - أن يكون الغرر في المعقود عليه إصالة: يشترط في الغرر حتى يكون مؤثرا في صحة العقد أن يكون في المعقود عليه أصالة. أما إذا كان الغرر فيما يكون تابعا للمقصود بالعقد فإنه. لا يؤثر في العقد. ومن القواعد الفقهية المقررة: أنه يغتفر في التوابع ما لا يغتفر في غيرها۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ج - ألا تدعو للعقد حاجة: يشترط في الغرر حتى يكون مؤثرا في العقد: ألا يكون للناس حاجة في ذلك العقد، فإن كان للناس حاجة لم يؤثر الغرر في العقد، وكان العقد صحيحا.

بداية المجتهد ونهاية المقتصد (3/ 173):

وبالجملة فالفقهاء متفقون على أن الغرر الكثير في المبيعات لا يجوز، وأن القليل يجوز۔

مجلة مجمع الفقه الإسلامي (11/ 344) للدكتور الصديق محمد الأمين الضرير:

عقد الصيانة من العقود الضرورية التي لا غنى للمجتمع عنها؛ فالبناء، والمصنع، والقطار، والسيارة، والطائرة، والساعة، وكل موجود يحتاج إلى الصيانة لكي يبقى ويستمر منتفعا به إلى أن يلحقه الفناء.

محمدنعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

25/جمادی

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب