ہمارے ایک جدت پسند دوست کا کہنا ہے کہ یہ جو عورتیں آج کل گھروں میں ماسیوں کی صورت میں کام کرتی ہیں، آج کے زمانے میں انہیں کو "باندی" کہا جاتا ہے، اور قرآنِ کریم میں اپنی بیوی اور انہیں (باندیوں) کو استعمال کرنے کا کہا گیا ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟ اگر نہیں تو آج کل "باندی" کا تصور کیا ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
آپ کے دوست کی یہ بات بالکل غلط ہے۔ آج کل گھروں میں جو خواتین کام کرتی ہیں یہ آزاد خواتین ہیں، گھر کے مالک کے لیے یہ خواتین اجنبی اور نامحرم ہیں۔ ان کو باندی سمجھنا، ان سے باندی جیسا سلوک کرنا، یا باندی جیسا تعلق رکھنا سخت ناجائز اور حرام ہے۔
اسلام میں غلام/ باندی کا تصور یہ ہے کہ کفار سے جنگ کے دوران جو لوگ گرفتار کیے جائیں تو اگر مسلمان حاکم مصلحت کے پیشِ نظر بہتر سمجھے تو ان کفار قیدیوں کو غلام/ باندی بناسکتا ہے۔
آج کل غلام/ باندی کا تصور سمجھنے سے قبل یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اگر مسلمان کفار سے کسی قسم کا جائز معاہدہ کریں تو اس معاہدے کی پاسداری اس وقت تک لازمی ہے جب تک کفار خود اس کی خلاف ورزی نہ کریں، یا مسلمان کفار کو پیشگی اطلاع دیکر اس معاہدے کو ختم نہ کرائیں۔
یہ بات سمجھنے کے بعد مذکورہ مسئلہ کی وضاحت یہ ہے کہ:
آج کل چونکہ مسلم ممالک اور کفار کے درمیان بین الاقوامی طور پر یہ معاہدہ ہوا ہے کہ کوئی فریق بھی جنگی قیدی کو غلام یا باندی نہیں بنائے گا، اس لیے جن جن ممالک نے اس معاہدے کو قبول کیا اور اتفاقِ رائے سے منظور کیا ہے، جب تک یہ معاہدہ برقرار ہے ان کے لیے اس معاہدے کو توڑنا اور ایک دوسرے کے جنگی قیدیوں کو غلام یا باندی بنانا جائز نہیں۔ البتہ اگر کفار خود اس معاہدہ کو توڑ دیں اور مسلمان قیدیوں کو غلام یا باندی بنانے کا سلسلہ شروع کردیں، یا کوئی ملک اس معاہدے سے نکل جائے اور دوسرے فریق کو پہلے سے معاہدہ ختم کرنے کی اطلاع دیدے تو ان دو صورتوں مسلمانوں کے لیے بھی ان کفار کے قیدیوں کو غلام/ باندی بنانا جائز ہوگا۔