021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیر ملکی کرنسی کی خرید و فروخت کا حکم
62800خرید و فروخت کے احکامبیع صرف سونے چاندی اور کرنسی نوٹوں کی خریدوفروخت کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی نےتقریبا دو سال پہلے اسی ہزار ڈالر دوسرے آدمی کو فروخت کیے۔ہوا اس طرح کہ ڈالر اس وقت تقریبا سو روپے کا تھا ،انہوں نے ایک سو پندرہ کے حساب سے ایک سال کے ادھار پر بیچا۔ایک سال مکمل ہونے پر مشتری نے پاکستانی کرنسی دینے میں ٹال مٹول شروع کردی،آخر کار دو مہینوں کے بعد انہوں نے کہا کہ جتنی پاکستانی کرنسی آپ کی میرے پاس ہے اس کے عوض جتنا ڈالر بنتا ہے وہ ڈالر مجھے ادھار بیچ دو،تو انہوں نے آپس میں پھر یہ بیع کرلی۔اس دوسرے بیع میں جانبین میں سے کسی نے بھی کسی بھی کرنسی پر قبضہ نہیں کیا، جبکہ پہلی بیع میں مشتری نے اسی ہزار ڈالر پر قبضہ کیا تھا۔نیز جانبین نے ادائیگیاں بھی کرلی(پہلی بیع کی اصل رقم بمع نفع ادائیگی ہوچکی ہے،جب کہ دوسری بیع کی اصل رقم کی ادائیگی ہوچکی ہے اور نفع کی ادائیگی نہیں ہوئی ہے)لہذا آپ حضرات سے درخواست کی جاتی ہے کہ مذکورہ مسئلہ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں حل فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

غیر ملکی کرنسی کی خرید و فروخت کےجواز کے لیےدو شرطیں ہیں: 1۔مجلس عقد (جہاں خرید و فروخت کا معاملہ ہوا ہے)ہی میں دونوں کرنسیوں یا کم از کم ایک کرنسی پر قبضہ کیا جائے۔ 2۔کرنسی کی خرید وفروخت مارکیٹ ریٹ پر کی جائے،تاکہ اسے سود کےحصول کا ذریعہ نہ بنایا جاسکے۔ چونکہ مذکورہ بالاصورت میں پہلی بیع میں پہلی شرط پر عمل ہوا ہے،لیکن دوسری شرط پر عمل نہ ہونے کی وجہ سےنیز قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے یہ عقد مکروہ اور ناجائز ہے،اس کی وجہ سے یہ شخص گنہگار بھی ہے،لہذا اسے چاہیے کہ اللہ جل جلالہ کے حضور سچے دل سے توبہ و استغفارکریں اور آئندہ مارکیٹ ریٹ پر ہی غیر ملکی کرنسی کی خرید و فروخت کریں اور مارکیٹ ریٹ سے زائد جو لیا ہے وہ بلا نیت ثواب صدقہ کردے۔ البتہ دوسری بیع میں کسی بھی جانب سے کسی بھی کرنسی پر قبضہ نہیں ہوا ،جس کی وجہ سے یہ بیع بھی صحیح نہیں ہوئی،کیونکہ یہ بیع الکالئ بالکالئ ہےجو ناجائز ہے،لہذا بیع ثانی میں بائع کا مشتری کے ذمہ کوئی حق نہیں ۔
حوالہ جات
قال شمس الأئمۃ السرخسی رحمہ اللہ تعالی:" وإذا اشترى الرجل فلوسا بدراهم، ونقد الثمن، ولم تكن الفلوس عند البائع،فالبيع جائز؛لأن الفلوس الرابحة ثمن كالنقود،وقد بينا أن حكم العقد في الثمن وجوبها ووجودها معا ،ولا يشترط قيامها في ملك بائعها لصحة العقد ،كما لا يشترط ذلك في الدراهم والدنانير." (المبسوط:14/41،دار الفکر) وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللی تعالی:" (باع فلوسا بمثلها أو بدراهم أو بدنانير، فإن نقد أحدهما،جاز) وإن تفرقا بلا قبض أحدهما لم يجز لما مر" وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی:" لأن ما في الأصل لا يمكن حمله، على أنه لا يشترط التقابض، ولو من أحد الجانبين؛لأنه يكون افتراقا عن دين بدين،وهو غير صحيح. فيتعين حمله على أنه لا يشترط منهما جميعا ،بل من أحدهما فقط. وقال بعد أسطر:" [تنبيه] سئل الحانوتي عن بيع الذهب بالفلوس نسيئة: فأجاب: بأنه يجوز إذا قبض أحد البدلين؛ لما في البزازية: لو اشترى مائة فلس بدرهم يكفي التقابض من أحد الجانبين. قال: ومثله ما لو باع فضة أو ذهبا بفلوس كما في البحر عن المحيط." (الدر المختار مع رد المحتار:5/179،180،دار الفکر،بیروت) وقال أیضا:" فقد ذكر الخير الرملي أول البيوع عن جواهر الفتاوى: له على آخر حنطة غير السلم،فباعها منه بثمن معلوم إلى شهر،لا يجوز؛ لأنه بيع الكالئ بالكالئ، وقد نهينا عنه. وإن باعها ممن عليه،ونقد المشتري الثمن في المجلس،جاز، فيكون دينا بعين." (رد المحتار:4/535،دار الفکر،بیروت) وفی سنن البیھقی:" عن عبد الله بن عمر عن النبى صلى الله عليه وسلم : أنه نهى عن بيع الكابالكالئ. قال أبو عبيدة : يقال هو النسيئة بالنسيئة." (2/92،دائرة المعارف النظامية) وقال شیخ الإسلام المفتی تقی العثمانی حفظہ اللہ تعالی:"أمّا تبادل العملات المختلفۃ الجنس مثل الربیّۃ الباکستانیّۃ بالرّیال السعودی،فقیاس قول الإمام محمد رحمہ اللہ تعالی أن تجوز فیہ النّسیئۃ أیضا؛لأن الفلوس(وھی الأثمان الاصطلاحیۃ)لو بیعت بخلاف جنسھامن الأثمان مثل الدراھم،فیجوز فیھا التفاضل والنّسیئۃ جمیعا،بشرط أن یُقبض أحد البدلین فی المجلس؛لئلا یؤدّی إلی الافتراق عن دین بدین." (فقہ البیوع:2/738،مکتبۃ معارف القرآن) عن نافع ،عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما ،عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم،قال:السمع والطاعة حق ، ما لم يؤمر بالمعصية ،فإذا أمر بمعصية ،فلا سمع ،ولا طاعة. وقال العلامۃ العینی رحمہ اللہ تعالی فی شرحہ:" قوله: السمع أي إجابة قول الأمير، إذ طاعة أوامرهم واجبة ما لم يأمر بمعصية ،وإلا فلا طاعة لمخلوق في معصية الخالق. ويأتي من حديث علي رضی اللہ عنہ بلفظ:" لا طاعة في معصية ،وإنما الطاعة في المعروف ...وذكر عياض:أجمع العلماء على وجوب طاعة الإمام في غير معصية، وتحريمها في المعصية". (عمدۃ القاری:21/474) و قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ تعالی:" وإذا أمر عليهم يكلفهم طاعة الأمير فيما يأمرهم به، وينهاهم عنه؛ لقول الله تبارك وتعالى:"يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم" . [النساء: 59] وقال عليه الصلاة والسلام : "اسمعوا وأطيعوا، ولو أمر عليكم عبد حبشي أجدع، ما حكم فيكم بكتاب الله تعالى"،ولأنه نائب الإمام، وطاعة الإمام لازمة كذا طاعته؛ لأنها طاعة الإمام، إلا أن يأمرهم بمعصية، فلا تجوز طاعتهم إياه فيها؛ لقوله عليه الصلاة والسلام : "لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق". (بدائع الصنائع:7/99،دار الکتب العلمیۃ،بیروت) وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی:" قوله: (أمر السلطان إنما ينفذ) :أي يتبع، ولا تجوز مخالفته. وسيأتي قبيل الشهادات عند قوله :أمرك قاض بقطع أو رجم إلخ التعليل بوجوب طاعة ولي الأمر . وفي ط عن الحموي: أن صاحب البحر ذكر ناقلا عن أئمتنا :أن طاعة الإمام في غير معصية واجبة ...". (رد المحتار:5/422،دار الفکر،بیروت) وقال شیخ الإسلام المفتی تقی العثمانی حفظہ اللہ تعالی:"ولکن جواز النّسیئۃ فی تبادل العُملات المختلفۃ یمکن أن یتّخذ حیلۃ لأکل الربا،فمثلا:إذا أراد المقرض أن یطالب بعشر ربیّات علی المئۃ المقرضۃ،فإنہ یبیع مئۃ ربیۃ نسیئۃ بمقدار من الدولارات التی تساوی مئۃ وعشر ربیّات.وسدّاً لہذا الباب،فإنہ ینبغی أن یُقیّد جواز النّسیئۃ فی بیع العُملات أن یقع ذلک علی السّعر السّوق السّائد عند العقد.۔ (بحوث فی قضایا فقہیۃ معاصرۃ:1/178،179،مکتبۃ دار العلوم)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب