021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نفسیاتی مریض کی طلاق کا حکم
62760 طلاق کے احکاممدہوشی اور جبر کی حالت میں طلاق دینے کا حکم

سوال

ایک عورت کو اس کے شوہر (جو کہ نفسیاتی مریض ہے) نے غصہ میں آکر "ایک طلاق" دیدی جوکہ اس کے پڑوس میں موجود عورت نے سنی۔ پھر دو تین سال کے بعدمعمولی بات پر بلاوجہ غصہ آگیا اور اس نے اپنی تین بچیوں (جو اپنی امی کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں) کے سامنے کہا کہ "میں تمہیں دوسری طلاق دیتا ہوں" ان بچیوں کو گواہ بناکر۔ ایک قابلِ ذکر بات یہ کہ شوہر نے ہر طلاق کے بعد رجوع کرلیا تھا۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح دو طلاقیں ہوئیں یا تین؟ کیونکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طرح جو طلاقیں دی گئی ہیں اس سے تین طلاقیں ہوگئی ہیں اور اب ساتھ رہنا ناجائز ہے۔ وضاحت: سائلہ نے فون پر بتایا کہ میرا شوہر شدید نفسیاتی مریض ہے، ڈاکٹر سے اس کا علاج جاری ہے۔ دونوں دفعہ طلاق دیتے وقت اس پر اس بیماری کا دورہ تھا، اچھے برے کی تمییز نہیں تھی، چنانچہ پہلی مرتبہ طلاق دینے کے بعد ہم گھر چھوڑ کر چلے گئے، بعد میں وہ پوچھ رہا تھا کہ کیا ہوا؟ میں جب جاگا ہوں تو گھر میں کوئی نہیں تھا

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر سوال میں ذکر کردہ صورتِ حال درست ہے اور مذکورہ شخص واقعۃً ایسا مریض ہے کہ بیماری کا دورہ پڑنے کی حالت میں وہ اکثر یہ نہ سمجھتا ہو کہ میں کیا الفاظ ادا کررہا ہوں اور اس کا کیا نتیجہ نکلے گا، اور مستند ڈاکٹر بھی اس کی تصدیق کرتے ہوں تو اگر اس نے مذکورہ دونوں طلاقیں اسی حالت میں دی تھی تو یہ طلاقیں واقع نہیں ہوئیں۔ لیکن اگر طلاق دیتے وقت وہ ہوش وحواس میں تھا اور اس کو پتہ چل رہا تھا کہ میں جو کچھ بول رہا ہوں اس کے نتیجے میں میری بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی تو پھر مذکورہ الفاظ سے دو طلاقیں واقع ہوگئی ہیں۔
حوالہ جات
حاشية ابن عابدين (3/ 244): والذي يظهر لي أن كلاً من المدهوش والغضبان لا يلزم فيه أن يكون بحيث لا يعلم ما يقول بل يكتفى فيه بغلبة الهذيان واختلاط الجد بالهزل كما هو المفتى به في السكران على ما مر، ولا ينافيه تعريف الدهش بذهاب العقل فإن الجنون فنون، ولذا فسره في البحر باختلال العقل و أدخل فيه العته والبرسام والإغماء والدهش، ويؤيد ما قلنا بعضهم العاقل من يستقيم كلامه وأفعاله إلا نادرا والمجنون ضده . وأيضاً فإن بعض المجانين يعرف ما يقول ويريده ويذكر ما يشهد الجاهل به بأن عاقل ثم يظهر منه في مجلسه ما ينافيه فإذا كان المجنون حقيقة قد يعرف ما يقول ويقصده فغيره بالأولى فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب