021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
صلح میں دعوت لازم کرانا
62835 حدود و تعزیرات کا بیانتعزیر مالی کے احکام

سوال

1. ہمارے علاقوں میں ایک رسم رائج ہے، وہ یہ کہ اگر کوئی شخص کسی کو قتل کرے اور پھر فریقین کے درمیان صلح ہوتو اس میں ایک تو قاتل سے دیت لی جاتی ہے، لیکن جرگہ کی طرف سے دیت کے ساتھ قاتل پر مقتول کے رشتہ داروں اور اہلِ علاقہ کے لیے دعوت ِ طعام کو بھی لازم کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دیت کے ساتھ قاتل پر دعوت لازم کرانا کیسا ہے؟ 2. اگر دیت نہ لی جائے تو دعوت لازم کراناکیسا ہے؟ 3. قتل کے علاوہ ویسے لڑائی کے بعد صلح میں لوگوں کے لیے دعوت یا جانور ذبح کرانا لازم کرنا کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ جرگہ کی حیثیت شرعاً "حکم" کی ہے، اور حکم کے لیے شریعت کے خلاف فیصلہ کرنا جائز نہیں، اگر ایسا کوئی فیصلہ کیا تو وہ معتبر نہیں ہوگا۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ کسی پر "مالی جرمانہ" لازم کرنا شرعاً جائز نہیں۔ اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درجِ ذیل ہیں:- 1. اگر قتلِ عمد کا فیصلہ ہو اور مقتول کے اولیاء دیت لینے پر راضی ہوجائیں تو اس صورت میں مقتول کے اولیاء کے مطالبے پر دوسرے فریق پر دعوت لازم کرانے کی گنجائش ہے۔ کیونکہ قتلِ عمد کی صورت میں اگر اولیائے مقتول مال لے کر صلح کرنے پر راضی ہوں تو وہ دیت سے زیادہ مال کا مطالبہ بھی کرسکتے ہیں، لہٰذا اس صورت میں گویاکہ اولیائے مقتول دیت اور اس دعوت کے بدلے صلح کررہے ہیں جو کہ درست ہے۔ لیکن قتلِ عمد کے علاوہ دیگر صورتوں میں چونکہ اولیائے مقتول دیت سے زیادہ مال کا مطالبہ نہیں کرسکتے، اس لیے ان صورتوں میں دعوت لازم کرانا "مالی جرمانہ" کے زمرے میں آنے کی وجہ سے جائز نہیں ہوگا۔ 2. اگر مقتول کے اولیاء دیت نہ لیں تو پھر قتل کی تمام صورتوں میں دعوت لازم کرانے کی گنجائش ہے۔ گویاکہ اس صورت میں اولیائے مقتول دیت کے بجائے اس دعوت کے بدلے صلح کررہے ہیں۔ 3. یہ "مالی جرمانہ" کے زمرے میں آتا ہے جوکہ جائز نہیں۔
حوالہ جات
الدر المختار (6/ 529): ( و ) موجبه ( القود عينا ) فلا يصير مالاً إلا بالتراضي فيصح صلحاً ولو بمثل الدية أو أكثر، ابن كمال عن الحقائق. حاشية ابن عابدين (6/ 529): قوله ( فلا يصير مالا الخ ) تفريع على قوله عينا أي ليس لولي الجناية العدول إلى أخذ الدية إلا برضا القاتل ، وهو أحد قولي الشافعي وفي قوله الآخر الواجب أحدهما لا بعينه ويتعين باختياره والأدلة في المطولات، قوله ( فيصح صلحا ) أي إذا كان القود عندنا هو الواجب في العمد فلا ينقلب مالا إلا من جهة الصلح، قوله ( ولو بمثل الدية أو أكثر ) أطلقه فشمل ما لو كان من جنسها أو من غيره حالا أو مؤجلا كما في الجوهرة وأشار إلى خلاف الشافعي فإنه على قوله الثاني لو صالح على أكثر من الدية من جنسها لا يصح؛ لأنه يصير ربا ويصح على قوله الأول، وتمامه في الكفاية. الدر المختار (5/ 634): ( و ) صح ( في ) الجناية ( العمد ) مطلقا ولو في نفس مع إقرار ( بأكثر من الدابة والأرش ) أو بأقل لعدم الربا وفي الخطأ كذلك لا تصح الزيادة لأن الدية في الخطأ مقدرة حتى لو صالح بغير مقاديرها صح كيفما كان بشرط المجلس لئلا يكون دينا بدين. حاشية ابن عابدين (5/ 634): قوله ( وصح في الجناية العمد ) شمل ما إذا تعدد القاتل أو انفرد حتى لو كانوا جماعة فصالح أحدهم على أكثر من قدر الدية جاز وله قتل البقية والصلح معهم لأن حق القصاص ثابت على كل واحد منهم على سبيل الانفراد ، تأمل ، رملي. قوله ( لعدم الربا ) لأن الواجب فيه القصاص وهو ليس بمال ، قوله ( كذلك ) أي ولو في نفس مع إقرار، ح. قوله ( الزيادة ) أفاد صحة النقص. الدر المختار (4/ 61): ( لا بأخذ مال في المذهب ) بحر. وفيه عن البزازية: وقيل: يجوز، ومعناه أن يمسكه مدةً لينزجر ثم يعيده له، فإن أيس من توبته صرفه إلى ما يرى، وفي المجتبى: أنه كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ . حاشية ابن عابدين (4/ 61): مطلب في التعزير بأخذ المال: قوله ( لا بأخذ مال في المذهب ) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال، وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز اه ، ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف، قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اه ، ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان، قوله ( وفيه الخ ) أي في البحر حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدةً لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة؛ إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي، وفي المجتبى: لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى، وفي شرح الآثار التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ آه. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال، وسيذكر الشارح في الكفالة عن الطرسوسي أن مصادرة السلطان لأرباب الأموال لا تجوز إلا لعمال بيت المال أي إذا كان يردها لبيت المال.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب