قرآن کریم کی تفسیر اور قرآن سے متعلق مسائل کا بیان
متفرّق مسائل
سوال
جناب مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں یہود ونصاری کی دنیوی زندگی میں جس ذلت ورسوائی کا ذکر فرمایا ہے،اس کے مطابق تو ان کی زندگی تنگ نظر آنی چاہئے ؛ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہود دنیاوی زندگی میں بظاہر کامیابی وترقی کی طرف تیزی سے سفر کرتے ہوئے نطر آتے ہیں ۔ اس طرح آسائشوں کے ساتھ ساتھ دنیا پر حکمرانی کرتے ہوئے بھی دیکھاجاتا ہے ،اور اس صورت حال میں اللہ پاک کے اس ارشاد وضربت علیھم الذلة والمسکنة ،،کاکیا مطلب ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
یہود کی دائمی ذلت ومسکنت کامفہوم جو ائمہ تفسیر صحابہ وتابعین سے منقول ہے اس کاخلاصہ ابن کثیر کے الفاظ میں یہ ہے کہ وہ کتنے ہی مالدار بھی ہوجائیں ہمیشہ تمام اقوام میں ذلیل وحقیر ہی سمجھے جائیں گے جن کے ہاتھ لگیں گے ان کو ذلیل کرےگا ۔
امام تفسیر ضحاک ابن مزاہم نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے ان کی ذلت ومسکنت کا مفہوم یہ نقل کیا ہے کہ ,,ھم اھل النیالات یعنی الجزیہ ،، مطلب یہ ہےکہ یہود ہمیشہ دوسروں کی غلامی میں رہیں گے ،ان کو ٹیکس وغیرہ ادا کرتے رہیں گے خود ان کو کوئی قوت اور اقتدار حاصل نہ ہوگا ۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے
{ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ} [آل عمران: 112]
تفسیر کشاف میں اس جگہ استثنا کو متصل قرار دے کر آیت کا یہ معنی بیان کیا ہے کہ یہودپر ذلت وخواری لگی رہے گی مگر دوصورتوں میں وہ اس ذلت سے بچ سکتے ہیں ۔ایک بحبل من اللہ ،،اللہ کاعہد مثلا نابالغ یاعورت ہونے کی بناءپر بحکم خداوندی وہ قتل وغیرہ سے مامون ہیں ۔ دوسرے بحبل من الناس ،،لوگوں سے معاہدہ صلح کی بناء پر ان کی ذلت وخواری کاظہور نہ ہوگا ۔ اسرائیل کی موجودہ حکومت سے لوگوں کو اشکال ہوتاہے ان کےپاس تو حکومت بھی ہے ۔اس اشکال کاجواب یہ ہے کہ یہ حکومت درحقیقت ,, حبل من الناس ,,میں داخل ہے کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ یہ یورپ امریکہ کی ایک مشترکہ چھاؤنی ہے جو عرب سرزمین پر ناجائز طور پر پر قائم کی گئی ہے وہی ان کی پشت پناہی کررہے ہیں ۔ اگرامریکہ اور اس کے اتحادی آج ان پر سے اپناہاتھ اٹھا لیں تواسرائیل ایک دن بھی اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا ۔